کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 33
جائے تو خبر، اور دوسرے لاکھوں انسان مارے جائیں تو معمول کی ایک بات۔ روشن خیالی کی یہی بدترین قسم، مغرب کی مادہ پرست تہذیب کا مظہر ہے۔
٭ یہ کہنا کہ: ’’سوویت یونین کو امریکا بہادر نے جنگی دباؤ اور پیچیدہ عمل سے پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا۔‘‘ کتنی بڑی سفاکی اور کس درجے کی دروغ بافی ہے۔ اشتراکی روس کے وجود کو رِستا ہوا ناسور بنانے میں کیا ۱۳/ لاکھ افغانوں کی جانیں ، ۶۰/ لاکھ افغان عورتوں ، بچوں اور بوڑھے انسانوں کی ۱۵/ برس تک مہاجرت کسی شمار میں نہیں ہیں ؟
٭ اسلام کے نئے ماڈل کی تشکیل(reconstruction) کا کام کرنے کے لیے مرزاے قادیان کی طرح کے کئی ہرکارے، اہلِ مغرب اور ان کی پٹھو مسلمان حکومتوں کی چھتری تلے کام کررہے ہیں ، مگر اس کے باوجود موصوف کی بے صبری دیدنی ہے۔
٭ سب سے اہم یہ کہ مضمون نگار اس تحریر میں ان پُرامن مسلمانوں کو جو درس گاہوں ، پارلیمانوں ، ہسپتالوں ، ابلاغی اداروں اور دینی اداروں میں کام کر رہے ہیں ، سفاکانہ نشانہ بنانے کا درس دے رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بدمست دانش ور دنیا کو آگ، خون اور موت کے حوالے کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک کسی ایسے فرد کا کوئی احترام نہیں جو کھلے عام اور پُرامن طور پر سماجی زندگی میں کام کر رہا ہے۔
…………………
اس سامراجی یلغار کے راستے صاف کرنے کے لیے خود ہماری اقوام میں ، ہم جیسے نام اور شکلیں رکھنے والے بہت سے کارندے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ کبھی یہ کام سامراج کے ٹوڈی، قادیانی اور بہائی کرتے تھے، اب ان کے ساتھ’روشن خیال‘ اور منکرینِ حدیث، طاقت کے سرچشموں پر قابض ’ماڈرن مُلّا‘ بھی شریک ِ کار ہیں ۔ لاہور سے ایک اخبار نکلتا ہے: ’ڈیلی ٹائمز‘ جس کے مالک پنجاب کے گورنر اور پیپلزپارٹی کے منظورِ نظر لیڈر سلمان تاثیر ہیں ۔ اس پرچے میں مذہبی آزادی، تقسیمِ ہند، فرقہ واریت، کلچرل آزادی اور فری سوسائٹی کے نام پر جو کچھ چھپتا ہے، وہ قوم کے سامنے ہے، مگر اس پر سوال اٹھانا ’آزادیٔ صحافت‘ کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔