کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 32
نشانہ بنانا ہے، جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیمی، دینی، عدالتی، اِبلاغی اور سیاسی اداروں میں کام کر رہے ہیں ۔
ہمارا اگلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مسلمانوں کی مدد کریں جو اسلامیان کے نقطۂ نظر کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلامی طرزِ حکومت کے برعکس جدید طریقوں پر زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ [روشن خیال] مسلمان ایک کمزور مخلوق ہیں اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہے۔ مزید برآں اُنہوں نے حال ہی میں تحقیق و جستجو سے ناطہ جوڑا ہے۔ وہ رابطے، ابلاغ، تنظیم، مالیات کی فراہمی اور متحرک ہونے کے لیے محنت سے کام کر رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کرنے کے لیے ان روشن خیال مسلمانوں کو، غیرمسلموں کی حوصلہ افزائی اور مالی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ آخری تجزیے میں اسلامیّت نے اہلِ مغرب کے سامنے دو چیلنج پیش کیے ہیں ، اور وہ یہ کہ’’ بات صاف صاف کی جائے، اور فتح کے حصول تک جدوجہد جاری رکھی جائے۔‘‘ (www.danielpipes.org)
…………………
ڈینیل پایپس کی اس تحریر کے دامن میں چھپی ہوئی شرارت اور دروغ گوئی تو واضح ہے، تاہم چند اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:
٭ یہ صاحب، اسلامیانِ عالم کو بطورِ دشمن نام دینے اور ان کا تشخص متعین کرنے کا واویلا کر رہے ہیں ، حالانکہ ۲۰۰۱ء ہی کے آخر تک امریکا نے تاریخ کی بدترین بم باری کرکے لاکھوں افغانی مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا، اور پھر ۲۰۰۳ء کے نصف ِاوّل میں عراق پر موت اور بارود کی بارش کر کے لاکھوں مسلمانوں کو برباد کر دیا تھا۔ مگر مضمون نگار تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ابھی تک نام متعین کرنے کی بحث کا سوال اُٹھا کر، انسانی تاریخ کے اس بدترین قتلِ عام کو معمول کا واقعہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
٭ دوسری جنگ ِعظیم کی ’فتح‘کو ایک لفظ ’ایٹم‘ سے موسوم کر کے ذِکر یوں چھیڑا ہے جیسے اور توکچھ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ نہیں بتایا کہ ان دو ایٹم بموں نے کتنے لاکھ جاپانیوں کو ہلاک یا اَپاہج کردیا تھا اور اس جنگ میں کتنے سو لاکھ انسانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ گویا کہ ایک امریکی مارا