کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 31
صدربش نے کہا: ’’ہم اس دہشت گردی کے خلاف عظیم جدوجہد کر رہے ہیں ، جو شرقِ اوسط کی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکی ہے۔‘‘ یہ ہے وہ موقف جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے امریکی انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں ’موت کے فدائی‘، ’فرقہ واریت کے پرستار‘ اور’دہشت کے متوالے‘ جیسی غیرواضح اور مبہم اصطلاحوں کو استعمال کرتی ہیں ۔
اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جامع نام رکھتا ہے اور وہ ہے: ’’اسلام ازم‘، ’اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور‘، ’اسلام پرست آمرانہ نظریہ‘ جو بھرپور مالی مدد سے اسلامی قوانین (شریعہ) کو عالمی اسلامی ضابطے کے طور پر نافذ کرنے کا خواب ہے۔‘‘
اس مناسبت سے ہدف بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ’’ اسلام ازم کو شکست فاش دینا اور اسلام کی ایک متبادل شکل وضع کرنے کے لیے مسلمانوں کی مدد کرنا۔‘‘ یہ کام اتفاقیہ طور پر انجام دینے کی سوچ کے ساتھ نہیں بلکہ حلیف قوتوں کی مدد سے اسی جذبے کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس عزم کے ساتھ ماضی میں دو یوٹوپیائی انقلابی تحریکوں ،یعنی فسطائیت اور اشتراکیت کو سبق سکھانے کے لیے بڑا مضبوط قدم اُٹھایا گیا تھا۔
پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس نظریاتی دشمن کو ویسی شکست ِفاش دی جائے، جس طرح ۱۹۴۵ء اور ۱۹۹۱ء میں کیا گیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اس [اسلامی] انقلابی نظریے کی تحریک کو کمزور اور پھر نابود کردیا جائے، تاکہ ان کے ہاتھوں دنیا کے ہلاے جانے کی دہشت کا خاتمہ ہوجائے۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ ِعظیم [۴۵-۱۹۳۹ئ] ہم نے خون، لوہے اور ایٹم بم کے ذریعے جیتی تھی، ایک تو یہ ماڈل ہوا۔ دوسرا ماڈل [اشتراکی روس سے] سرد جنگ جیتنے کا ہے، کہ جس میں جنگی دباؤاور پیچیدہ عمل کو بروے کار لایا گیا تھا، جس نے سوویت یونین کو پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا۔
تاہم اسلامیت کے خلاف فتح پانے کے لیے مذکورہ بالا دونوں حکمت ِعملیوں کو بروے کار لانا ہوگا، جو بھرپور جنگ، جوابی دہشت گردی، جوابی پروپیگنڈا اور دیگر بہت سے ہتھکنڈوں پر مشتمل ہوگی۔ ماضی میں اس راہ پر چلتے ہوئے افغانستان سے طالبان کی حکومت کا صفایا کیا گیا تھا اور اب اگلے قدم کے طور پر ہمیں قانون پسند اسلامیان(Lawful Islamists) کو