کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 30
پایپس (Daniel Pipes) کا بھی ہے، جس کی اشتعال انگیز تحریریں ، علم و دانش اور اخلاق واَدب کی دنیا میں تو کوئی وزن نہیں رکھتیں ، مگر وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور دس ڈاوننگ سٹریٹ ان تحریروں کا عملی ترجمہ کرنے میں کسی سے پیچھے رہتے نظر نہیں آتے۔ یہاں پر اسی فرد کے ایک تازہ مضمون The Enemy Has a Name کا ترجمہ دیا جا رہا ہے، جو مقبوضہ فلسطین کے یہودی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ میں ۱۹/جون۲۰۰۸ء کو شائع ہوا اور بعدازاں اس کی ویب سائٹ سے دوسرے حلقوں میں پہنچایا گیا، ترجمہ ملاحظہ ہو:
اگر آپ دشمن کو متعین طور پر نام نہیں دیں گے تو پھر آپ اسے شکست کیسے دے سکیں گے؟ بالکل اس طرح جیسے ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مریض کے مرض تشخیص کرے۔ تاحال امریکا اپنے مخالفین میں سے دشمن کو متعین کرنے میں متردّد نظر آتا ہے۔
۲۰۰۱ء کے اَواخر میں امریکی اعلیٰ حکام نے اس ضمن میں غیرمؤثر اور غیریقینی اعلامیے جاری کیے۔ وزیردفاع رمزفیلڈ نے کامیابی کو اس امر سے منسوب کیا کہ ’’ہم ایسی فضا پیدا کرنا اور اس کاتحفظ چاہتے ہیں کہ جہاں ہم ہر قسم کی آزادی سے سانس لے سکیں ۔‘‘ جب کہ صدربش نے کہا: ’’ہم دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو شکست دینا چاہتے ہیں ۔‘‘ دراصل ’دہشت گردی کو شکست‘ دینا ہی اصل نصب العین اور ہدف ہونا چاہیے، جو تاحال حاصل نہیں ہوسکا۔ ماہرین کے بقول دہشت گردی بذاتِ خود کوئی دشمن نہیں بلکہ دشمن کی ایک جنگی چال کا نام دہشت گردی ہے۔ آخرکار صدر بش نے ۲۰۰۴ء کے وسط میں اعتراف کیا: ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دشمن کا درست نام نہیں لیا۔ دراصل یہ ان نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہے جو آزاد خیال معاشروں پہ یقین نہیں رکھتے، اور جو آزاد خیال معاشروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے دہشت گردی کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔‘‘
اگلے برس برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ذرا وضاحت سے کہا: ’’دشمن دراصل وہ مذہبی نظریہ ہے جو دنیا بھر میں اسلام کے نام سے موسوم ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد صدربش نے تین اصطلاحیں استعمال کیں : ’اسلامی انقلابیت‘، ’دہشت گردانہ جہادازم‘ اور ’اسلامی فسطائیت‘۔ مگر ان اصطلاحوں پر سخت تنقید کے نتیجے میں بش ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کے وسط میں