کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 29
اسلام اور مغرب ڈینیل پایپس
تبصرہ و ترجمہ: سلیم منصور خالد
’دشمن‘ کا نام ہونا چاہیے!
ہم بھی ایک عجب عہد میں سانس لے رہے ہیں کہ پسے اور مصیبت میں پھنسے ہوئے فرد بلکہ معاشرے ہی کو نصیحت کے درس دیے جاتے ہیں اور ظالم کے ظلم پر بات کرنے کو مصلحت کے خلاف یا شاید انتہا پسندانہ سوچ قرار دیا جاتا ہے۔
مغرب کے مخصوص دہشت پسندانہ ماحول اور مسلم دنیا کی استبدادی فضاؤں میں سانس لینے والے ’ناصحین اور سیانے‘ لوگ یہ کہتے ہیں : ’’بھائی، مسلم دنیا کے بارے میں فکری عدم توازن اور قلمی صلیبیت کے علم بردار مغربی قلم کاروں کی تحریروں کا مت نوٹس لیا کریں ۔ مغربی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح کے سیانے لوگوں میں کچھ ظالم تو ہر بات اور ہرحادثے کی خبر پر اپنے مجبور و مظلوم بھائیوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے، طنزیہ انداز میں کہتے ہیں : ’’اچھا، یہ بھی یہودی سازش ہے‘‘۔ اور ایسا جملہ اُچھالتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے چہروں پر دانش کی چمک پھیل جاتی ہے، حالانکہ وہاں پر عبرت کی سیاہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ چلئے، ناصحین کے ہدایت نامے کو لمحے بھر کے لیے تسلیم کر ہی لیا جائے کہ ایسی دل آزار اور اشتعال انگیز تحریریں لکھنے والے کچھ جنونی لوگ ہی ہیں اور بس۔ مگر اس چیز کا کیا کیا جائے کہ انہی فکری دہشت گردوں کی گرد کو مغربی سیاسی و فوجی قیادتیں اپنی آنکھ کا سرمہ اور غبار کو فکر کا محور بنا لیتی ہیں ۔ پھرکٹھ پتلیوں کی طرح ان لوگوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کو دنیا میں پھیلانے کے لیے اندھادھند کارروائیاں شروع کردیتی ہیں ۔ مغربی دنیا کے لوگ انہی لیڈروں کو اپنا رہبر و رہنما بھی منتخب کرتے ہیں اوران کے ہاتھ میں آگ، دولت اور موت کی کنجیاں بھی دے دیتے ہیں ۔
یہاں مغرب کے جس فتنہ جو گروہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، انہی میں ایک نام ڈینیل