کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 28
یہ ساری رقم کنسلٹنٹ جو گاہگ گھیر کر لاتا ہے اور برانچ ذمہ داران کی جیبوں میں جاتی ہے اور پالیسی ہولڈر کو اس کا علم تک نہیں ہوتا۔
یہ بالکل وہی طریقہ ہے جو روائتی انشورنس کا ہے کہ پہلی قسط کا معتد بہ حصہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ کو دے دیا جاتا ہے۔ جب نام نہاد اسلامی انشورنس نظریاتی مرحلہ میں تھی، تب یہ کہا جاتا تھا کہ روایتی انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی قسط تقریباً پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے جبکہ تکافل میں یہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب عملی مرحلہ آیا تو نام نہاد اسلامی انشورنس نے بھی وہی راستہ اختیار کیا۔ہمارے خیال میں یہ پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے وہ اس طرح کہ اگر وہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد تکافل کمپنی کو اَلوداع کہتا ہے تو قواعد و ضوابط کے مطابق اس کو صرف وہ رقم ملتی ہے جو انوسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو یا پھراس سے حاصل ہونے والا نفع۔اب ستاسی فیصد تو ایلو کیشن فیس کے نام پر پہلے ہی الگ کیا جا چکا ہے، باقی تیرہ فیصد بچا، اس میں سے آدھا وقف میں چلا گیا جو شرعاً واپس نہیں لیا جا سکتا۔ جو باقی رہ گیااس میں سے ڈیڑھ فیصد مینجمنٹ اور ۶۵ سے لے کر ایک سو دس تک ماہانہ ایڈمن فیس بھی لی جانی ہے۔ پالیسی ہولڈر کے ہاتھ اس کے سوا کیا آیا کہ تکافل کمپنی کے تنخواہ دار شریعہ بورڈ کے مفتیانِ کرام کا ایک عدد فتویٰ اور اس کے نتیجے میں اسلام کے نظامِ تکافل کے متعلق پیداہونے والی بد گمانی کہ یہ بھی استحصال پر مبنی نظام ہے۔ (اعاذناللہ منہ)
ایلوکیشن فیس کی اس کے علاوہ کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ مختلف حربوں سے مال کھانے کی بد ترین شکل ہے۔ مروّجہ تکافل کے حامی بڑی سادگی سے کہتے ہیں کہ ہم ہر بات پہلے بتادیتے ہیں ۔ ناجائز تو تب ہو جب کوئی بات خفیہ رکھی جائے۔یہ انتہائی لغو قسم کا استدلال ہے۔ کیا بتا کر باطل طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرنا جائز ہوجاتاہے؟ناجائز کاروبار میں ملوث لوگوں کی اکثریت بھی یہی کہتی ہے کہ ہم ہر بات پہلے طے کرتے ہیں ،پھر یہ ناجائز کیسے ؟ کیا تکافل کے حامی اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فقہاے اسلام نے بعض معاملات محض اس لیے ناجائز قررا دیے ہیں کہ ان سے کسی ایک فریق کو نقصان پہنچ رہاہوتاہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوا کہ مروّجہ تکافل روایتی انشورنس کا ہی چربہ ہے مگرتاویلا ت کے ذریعے اس کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔