کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 27
اثر میں بھی یہی ہے کہ اس نے دینار غلام تاجر کو دیے تھے، نہ کہ خود ہی تجارت میں لگا کر اس کے عوض فیس لینا شروع کر دی۔ اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ان کا نقطہ نظر کمزور ہے۔ لہٰذا تکافل کمپنیوں کی بنیاد ہی ایسے موقف پراستوار ہے جودلائل کی قوت سے محروم ہے۔ ٭ یہاں یہ وضاحت کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ تکافل کے حامیوں کی رائے میں پالیسی ہولڈر زکی اَقساط سے جو حصہ وقف پول میں جاتا ہے، وہ وقف کی بجائے وقف کی ملکیت ہوتا ہے جو وقف کے مصالح کے علاوہ ان لوگوں پر خرچ ہوگا جن کے لیے وقف قائم کیاگیا ہو گا جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں ۔ سوڈان کے معروف عالم پروفیسر صدیق محمد امین ضریر کے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ومالم یأت الباحث بدلیل علی أن ما یتبرع للوقف یصرف للموقوف علیھم فإن تأصیل التأمین التکافلي علی أساس الوقف ینھار من أساسہ (تعقیب عن بحث تأصیل التأمین التکافلي علی أساس الوقف والحاجۃ الداعیۃ إلیہ) ’’جب تک محقق (مولانا تقی عثمانی ) اس بات کی دلیل پیش نہیں کرتے کہ جو عطیہ وقف کو دیا جاتا ہے، وہ ان لوگوں پر ہی خرچ کیا جا سکتا ہے جن پر وقف کیا گیا ہو تو وقف کی بنیاد پر تکافلی انشورنس کا اُصول اپنی بنیاد سے ہی اُکھڑ جاتا ہے۔ ‘‘ ٭ یہاں اس امر کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا میں مروّجہ تکافل کی سب سے پہلی کمپنی سوڈان میں ۱۹۷۹ء میں صدیق محمد امین زیر نگرانی قائم ہوئی تھی، لیکن اس کی بنیاد وقف کی بجائے تَبَرُّع پرتھی۔ مگر اس کو وقف کی بنیاد پر قائم تکافل کمپنیوں کے مفتیانِ کرام جائز نہیں سمجھتے۔ بعض تحقیق طلب مسائل مروّجہ اسلامی انشورنس میں ایلو کیشن اور ایڈمن فیس کے نام پر وصولی بھی غور طلب پہلو ہے جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہے کہ پہلے سال قسط کی ۸۷ فیصد(زیادہ سے زیادہ ) دوسرے سال بیس، جبکہ تیسرے سال دس فیصد رقم ایلو کیشن فیس کے نام پر کاٹ لی جاتی ہے۔