کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 26
نہیں بلکہ صدقہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے توفرمایا کہ اپنا صدقہ مت خریدو مگر بیچنے والے پر پابندی نہیں لگائی۔اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی اعتراض کیا۔ اگر یہ وقف ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی منع فرما دیتے، کیونکہ وقف کو فروخت کرنا جائز نہیں ۔
٭ امام زہری رحمہ اللہ کا اثر بھی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ یہ وقف کے بارے میں نہیں بلکہ عام صدقہ کے متعلق ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ ان سے پوچھاگیاکہ کیا وہ شخص اس کے نفع سے خود بھی کھا سکتاہے ؟تو اُنہوں نے جواب دیا: نہیں ۔ اگر یہ وقف ہوتا تو یہ پابندی نہ لگاتے، کیونکہ وقف کنندہ کو شرعاً اپنے وقف سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت ہے۔ محدث اسماعیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’ زہری رحمہ اللہ کا اثر اس وقف کے خلاف ہے جس کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی تھی کہ ’’اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کرو۔ ‘‘ سونے چاندی سے تو تب ہی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جب اس کو بعینہٖ کسی دوسری چیز کی طرف نکالا جائے۔ غرض یہ اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کرو کی صورت نہیں بنتی۔ ‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محدث اسماعیلی رحمہ اللہ کے اعتراض کا جو جواب دیا ہے وہ صرف زیور جس کا ذاتی استعمال واضح ہے پر منطبق ہو تا ہے، درہم و دینا ر پر نہیں ، اس لیے اس کو روپے پیسے کے وقف کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
٭ موجودہ تکافل کے حامی فتح القدیر کے حوالے سے امام زفر رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن عبداللہ انصاری رحمہ اللہ کے فتویٰ کا ذکر بھی بڑی شد ومد سے کرتے ہیں کہ اُنہوں نے درہم ودینار کے وقف کو جائز قرار دیا ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تویہ فتویٰ خود تکافل کمپنیوں کیخلاف جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں :
قِیلَ وَکَیْفَ؟ قَالَ: یَدْفَعُ الدَّرَاہِمَ مُضَارَبَۃً ثُمَّ یَتَصَدَّقُ بِہَا فِي الْوَجْہِ الَّذِي وَقَفَ عَلَیْہِ
’’ کہا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ دراہم مضاربہ کی بنیاد پر کاروبا رکے لیے دے پھر ان پر صدقہ کرے جن پر وقف کیا گیا ہے۔‘‘
جبکہ تکافل کمپنیوں کے مالکان اپنے قائم کیے ہوئے وقف سے کسی کو بطورِ مضاربہ رقم نہیں دیتے بلکہ خود ہی کاروبار کرتے ہیں اور اس کی باقاعدہ فیس وصول کرتے ہیں ۔ امام زہری رحمہ اللہ کے