کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 25
کو استعمال کیے بغیر فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں ۔ (’اسلامی بینکاری کی بنیادیں ‘ ازمولانا تقی عثمانی: ص۱۶۹ )
اور اسی طرح تکافل کے مؤیدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کو باقی رکھ کر مستفید ہوا جا سکے تو پھر فقہاے کرام کی اس شرط کہ’’ وقف وہی چیز ہو سکتی ہے جو باقی رہ کر قابل فائدہ ہو‘‘ کو نظر انداز کر کے نقد کے وقف کے جواز کا فتویٰ دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ، ان کے خیال میں روپے پیسے کو بھی باقی رکھ کر فائدہ حاصل کیا جاسکتاہے اور وہ یوں کہ اس سے کاروبار کیا جائے اور جو نفع ہو وہ خرچ کر دیا جائے، اصل کو برقرار رکھا جائے تو یہ توجیہ دو وجہ سے درست نہیں ہے:
٭ ایک تو اس لیے کہ یہ صورت روپے پیسے کو اس کی اصل حیثیت میں باقی رکھ کر فائدہ حاصل کرنے کی نہیں ۔ اس طرح کا فائدہ توروپے پیسے کو کرایہ پر بھی لے کرلیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ شرعاً جائز نہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ اس قسم کا فائدہ نقد کی تخلیق کا اصل مقصد نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے المغنی میں لکھا ہے۔
٭ دوسرا اس لیے کہ روپے پیسے کو کاروبار میں لگانے سے فائدہ کی بجائے نقصان کا بھی اندیشہ ہے اور ممکن ہے کہ وقف ختم ہی ہو جائے۔ اس لیے یہ کہنا کہ وقف کی ہوئی رقم سے کاروبار کر کے اس کا نفع خرچ کیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کہ ’’اصل روک کر رکھو اور اس کی پیداوار خرچ کرو ‘‘کے خلاف ہے۔
جوحضرات نقد کے وقف کو نا جائز کہتے ہیں ، ان کا موقف درست ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قائلین نے اپنی تائید میں جو دلائل ذکر کے ہیں ، وہ ثبوت کے لیے ناکافی ہیں مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ایسی منقولی اشیا کا وقف تو ثابت ہوتاہے جن کااپنا ذاتی استعمال ہو مثلاًگھوڑا جس کا اپنا ذاتی استعمال ہے اور وہ ہے سواری وغیرہ، لیکن نقد جس کا اپنا کوئی ذاتی استعمال نہیں تو اس کا وقف ثابت نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے نقد کو گھوڑے پر قیاس کیا ہے جو درست نہیں ، کیونکہ دونوں میں واضح فرق ہے۔
مزید برآں یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم کی رائے میں یہ وقف تھا ہی