کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 24
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کی تائید میں امام زہری رحمہ اللہ کا یہ اثر بھی ذکر کیا ہے: ’’ امام زہری نے اس شخص کے متعلق فرمایا جس نے ہزار دینا ر اللہ کی راہ میں دیے اور وہ اپنے تاجر غلام کو حوالے کر دیے کہ وہ ان سے تجارت کرے اور اس کا نفع مساکین اور رشتہ داروں کے لیے صدقہ کر دیا۔ کیا وہ شخص اس ہزار کے نفع سے خود کھا سکتا ہے؟ خصوصاً اگر اس کا نفع مساکین کیلئے صدقہ نہ کیا ہو تو امام زہری نے فرمایا اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس سے کھائے۔ ‘‘ صحیح موقف امام بخاری رحمہ اللہ کا تفقّہ فی الدین اور مقام و مرتبہ شک وشبہ سے بالاتر ہے، لیکن اگرفریقین کے پیش کردہ دلائل کا تقابلی جائزہ لیاجائے تو حسب ِذیل وجوہ کے باعث ان حضرات کا موقف صائب معلوم ہوتا ہے جو روپے پیسے کے وقف کو جائز نہیں سمجھتے۔ 1. تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ وقف میں اصل چیز کو باقی رکھ کر صرف اس کی منفعت خرچ کی جائے گی۔اس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَہَا وَتَصَدَّقْتَ بِہَا)) (صحیح بخاری:۲۷۳۷) ’’اگر تو چاہے تو اس کا اصل روک لے اور اس کی منفعت(پیداوار)کو صدقہ کر دے۔‘‘ یہ حدیث اس امر کی صریح دلیل ہے کہ وقف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کو باقی رکھ کر فائدہ اُٹھانا ممکن ہوجبکہ روپیہ اپنی اصل حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نہ اس کو کھایا جاسکتا ہے، نہ پہنا جاسکتا اور نہ ہی اس میں رہائش رکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس پر سواری کی جاسکتی ہے۔ یہ تو محض حصولِ اشیا کاایک وسیلہ ہے یعنی جب تک اس کو خرچ نہ کریں ، اس سے استفادہ ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روپے ،پیسے کو کرایہ پر دینا بھی درست نہیں ،کیو نکہ کرایہ اسی چیز کا لیا جاسکتا ہے جسے صرف کے بغیر استعما ل کیا جا سکتا ہو، چونکہ نقد میں یہ خوبی نہیں ، اس لیے اس کا کرایہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اسی بنا پر امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے درہم ودینار کے وقف کا جواز ان لوگوں کا مسلک بیان کیا ہے جو ان کا کرایہ لینا جائز سمجھتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو: روضۃ الطالبین ۲/۲۵۴ اور المغنی ۸/۲۲۹ جب راجح مسلک کے مطابق ان کا کرایہ درست نہیں ہے اورمروّجہ تکافل کے حامی بھی اس سے متفق ہیں اور وجہ بھی وہی بیان کرتے ہیں جو فقہا نے وقف کے عدمِ جواز میں ذکر کی ہے کہ نقد