کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 23
مشروب، شمع اور اس جیسی دوسری اشیا وغیرہ تو عام فقہا اور اہل علم کے نزدیک ان کا وقف درست نہیں ہے۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ سے کھانے کے وقف کے متعلق مروی ہے کہ یہ جائز ہے …اس بات کو امام مالک کے شاگردوں نے بیان نہیں کیا… لیکن یہ موقف درست نہیں ، کیو نکہ وقف کا مطلب ہے:’’اصل کو باقی رکھنا اور اس کے فائدہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کرنا‘‘اور جس کو تلف کیے بغیر اس سے فائدہ لینا ممکن نہ ہو، اس میں وقف صحیح نہیں ہوتا ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :
وَجُمْلَۃُ ذٰلِکَ أَنَّ الَّذِي یَجُوزُ وَقْفُہُ مَا جَازَ بَیْعُہٗ، وَجَازَ الانْتِفَاعُ بِہٖ مَعَ بَقَائِ عَیْنِہِ،وَکَانَ أَصْلًا یَبْقٰی بَقَائً مُتَّصِلًا کَالْعَقَارِ وَالْحَیَوَانَاتِ وَالسِّلَاحِ وَالْأَثَاثِ وَأَشْبَاہِ ذَلِکَ (المغنی: ۸/۲۳۱)
’’وقف اسی کا جائز ہے جس کی بیع درست ہے اور اس کو بعینہٖ باقی رکھ کراس سے فائد ہ اٹھایا جا سکے۔ اور وہ ایسی چیز ہونی چاہئے جو متصلًا باقی رہے جیسے زمین ،جانور،اسلحہ،اثاثہ اور اس قسم کی دوسری اشیا وغیرہ ‘‘
علما وفقہا کا موقف تو اوپر آپ ملاحظہ کرچکے ہیں ، البتہ بعض اہل علم وہ بھی ہیں جو رقم کوبھی وقف کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔اِن میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔چنانچہ اُنہوں نے اس کے حق میں مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے :
بَابُ وَقْفِ الدَّوَابِّ وَالْکُرَاعِ وَالْعُرُوضِ وَالصَّامِتِ (صحیح بخاری،کتاب الوصایا)
’’جانوروں ،گھوڑوں ،سامان اور سونے، چاندی کے وقف کا بیان۔‘‘
اپنے موقف پر استدلال کیلئے اُنہوں نے اس باب کے تحت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے :
أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ لَہٗ فِي سَبِیلِ اﷲِ أَعْطَاہَا رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لِیَحْمِلَ عَلَیْہَا رَجُلاً فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّـہُ قَدْ وَقَفَہَا یَبِیعُہَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ یَبْتَاعَہَا فَقَالَ لاَ تَبْتَعْہَا وَلاَ تَرْجِعَنَّ فِی صَدَقَتِکَ
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔اور آپ رضی اللہ عنہ اُنہوں نے وہ گھوڑا رسول اللہ کو اس لیے دیاتاکہ کسی آدمی کو سواری کے لیے دے دیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ اب وہ شخص اس کو فروخت کررہا ہے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ اسے خرید لے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو مت خریدیں اور اپنا صدقہ واپس نہ لیں ۔ ‘‘