کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 21
عطیات کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ وقف کے قواعد و ضوابط کے تحت حاصل کرتا ہے یعنی وہ یہ نہیں کہتا چونکہ میں نے وقف کو اتنا چندہ دیا ہے، اس لیے میں ان فوائد کا حق رکھتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ ان قواعد کی بنیاد پرمجھے یہ فوائد حاصل ہونے چاہیے۔یہ قانونی حق اس کو عقد ِمعاوضہ میں داخل نہیں کرتا… مگردو وجوہ کے باعث یہ تاویل بیت ِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے :
1. ایک تو اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کو قواعد وضوابط کے تحت دعوی کرنے کا حق بھی تو دی گئی رقم کے بدلے ہی حاصل ہوا ہے۔ اب آپ قواعد وضوابط کا نام لیں یا پریمیم کی کمی بیشی کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
2. دوسرا اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کی نظر تو ان فوائد پر ہوتی ہے جو اس کو مستقبل میں اس کے بدلہ میں حاصل ہونا ہوتے ہیں ، وہ قواعد و ضوابط کے تحت حاصل ہوں یا دی گئی رقم کے عوض، اس کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت پالیسی حاصل کرتے وقت فوائد کے متعلق تو پوچھتی ہے مگر وقف کے قواعد وضوابط کے بارے میں سوال نہیں کرتی۔
ایک مجلس میں جب راقم نے ایک مشہورتکافل کمپنی کے سنیئر کنسلٹنٹ سے پوچھا کہ کیا آپ پالیسی حاصل کرنے کے خواہش مند وں کو قواعد وضوابط سے آگاہ کرتے ہیں ، تو اُنہوں نے صاف کہا کہ لوگ ہم سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا، قواعد وضوابط کے متعلق کبھی سوال نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جن خرابیوں کی بنا پر روایتی انشورنس حرام ہیں تکافل ان سے پاک نہیں ۔
کیا نقد ی کو وقف کیا جا سکتا ہے؟
یہاں یہ بحث بھی بڑی اہم ہے کہ روپیہ پیسہ وقف کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ تکافل کمپنی کی پوری عمارت اس پر استوار ہے، لہٰذا ہم اس مسئلہ کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
اکثر فقہا اور اہل علم کی رائے میں روپے پیسے اور درہم ودینار کا وقف ہی درست وجائز نہیں ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ہے:
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ کُلُّ مَا أَمْکَنَ الِانْتِفَاعُ بِہِ مَعَ بَقَاء ِ أَصْلِہِ وَیَجُوزُ بَیْعُہُ یَجُوزُ