کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 15
لکھتے ہیں : إن الزکاۃ فرع من فروع نظام التکافل الاجتماعي في الإسلام (فی ظلال القرآن: ۴/۴۱] ’’زکوٰۃ اسلام میں تکافل اجتماعی کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔‘‘ رمضان المبارک کے اختتام پر صدقہ فطر بھی تکافل اجتماعی کی ایک شکل ہے تاکہ چھوٹے سے لے کربڑے تک ہر شخص فقراء ومساکین کی دیکھ بھال میں حصہ دار بنے۔ ایسے ہی مال داروں کو فقیرعزیز واَقارب کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی تکافل میں شامل ہے جبکہ نفلی صدقات اور ہنگامی حالات میں اِنفاق کا حکم اس سے الگ ہے۔ اسی طرح غیر ارادی طور پر قتل ہوجانے کی صورت میں دیت تنہا قاتل پر ڈالنے کی بجائے عاقلہ (قاتل کے بھائی ،چچااور ان کی اولاد) کو شریک کرنے کاحکم تکافل کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : وَالْمَعْنٰی فِي ذٰلِکَ أَنَّ جِنَایَاتِ الْخَطَأِ تَکْثُرُ وَدِیَۃَ الآدَمِيِّ کَثِیرَۃٌ،فَإِیجَابُہَا عَلَی الْجَانِي فِي مَالِہِ یُجْحِفُ بِہٖ، فَاقْتَضَتْ الْحِکْمَۃُ إیجَابَہَا عَلَی الْعَاقِلَۃِ عَلَی سَبِیلِ الْمُؤَاسَاۃِ لِلْقَاتِلِ وَالإِعَانَۃِ لَہُ تَخْفِیفًا عَنْہُ (المغنی:۱۲/۲۱) ’’اس میں حکمت یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر ہونے والے جرائم بکثرت ہوتے ہیں اور آدمی کی دیت بھی کافی زیادہ ہے۔ لہٰذااس کو اکیلے خطاکارکے مال میں واجب قرار دینا اس پراس کے مال میں ناقابل برداشت ذمہ داری ڈالنے کا باعث ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بطورِ ہمدردی اور اعانت اس کی دیت عاقلہ پر واجب قراردی جائے۔‘‘ بلکہ غیر ارادی قتل میں دیت کا حکم بذاتِ خود تکافل کی ایک صورت ہے اور وہ یوں کہ بعض دفعہ مقتول کے بچے کمسن ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو گویا اسلام نے دیت مقرر کر کے ان کی کفالت کا انتظام کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسلام نے تکافل کا ایک مضبوط نظام دیا ہے، اگر اس پر عمل ہو جائے تو تمام محتاجوں کی معاشی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بایں ہمہ اگرضرورت پوری نہ ہو تو غنی مسلمانوں پر مزید خرچ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔