کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 14
مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ﴾
’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کی بابت نہیں لڑے اورجنہوں نے تم کوتمہارے گھروں سے نہیں نکالا،بلا شبہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الممتحنہ:۸)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ گرامی ہے :
((فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ أَجْرٌ))(صحیح بخاری: ۲۴۶۶)
ََ’’ہر جاندار میں ثواب ہے۔ ‘‘
یعنی ہرجاندار کے ساتھ احسان کرنا باعث ِثواب ہے۔
فقہا کی رائے میں جو اہل ذمہ اپنے معاش کے حصول سے عاجز ہو جائیں گے ان کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ جاری کیا جائے گا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے ایک ذمی بوڑھے کو دروازوں پر مانگتے دیکھا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کر دیا اور عمر بن عبدالعزیز نے بھی ایسا کیا تھا۔ ‘‘ [أحکام أہل الذمۃ، باب من لا یقدر من أہل الذمۃ أعطي من بیت المال]
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ سے کہا تھا کہ
’’تم میں سے جو بوڑھا ہو جائے گا یا جس پر کوئی آفت آجائے گی یا جو مال دار رہنے کے بعد غریب ہو جائے گا، وہ جب تک دار الاسلام میں رہے گا، اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی کفالت بیت المال کرے گا۔ ‘‘ (کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف )
ثابت ہوا اسلام کے نظامِ تکافل کا فیض انتہائی وسیع ہے جس سے اسلامی ریاست کا ہر مستحق شہری بلاتخصیصِ عقیدہ بقدرِ ضرورت مستفید ہوتا ہے۔
تکافل کی مختلف صورتیں
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق درجاتِ معیشت میں تفاوت اپنی جگہ مگراس طرح سادہ زندگی گزارنے کا حق سب کو یکساں حاصل ہے کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں ۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے زکوٰۃ ،عشر اور صدقہ فطر وغیرہ کا نظام دیا گیا ہے۔ اور معاشرہ میں دولت کو زیر گردش لانے اور غربا کی بہبود میں زکوٰۃ کا کردار بڑانمایاں ہے۔سید قطب شہید رحمہ اللہ