کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 13
((مَنْ کَانَ مَعَہٗ فَضْلُ ظَہْرٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلَی مَنْ لاَ ظَہْرَ لَہُ وَمَنْ کَانَ لَہُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلَی مَنْ لاَ زَادَ لَہٗ)) (صحیح مسلم:۱۷۲۸) ’’جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس کودے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد راشن ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس راشن نہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی جو اَصناف ذکر کیں ، سو کیں ؛ یہاں تک کہ ہم نے یہ سمجھا کہ زائد مال میں ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے۔ ‘‘ اسلام کہتا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو دنیا بھر کے مسلمان اس وقت تک بے چین رہیں جب تک اس کی تکلیف رفع نہ ہو جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عمدہ مثال بیان کر کے اس کو یوں سمجھایا : ((تَرٰی الْمُؤْمِنِینَ فِي تَرَاحُمِہِمْ وَتَوَادِّہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی عُضْوًا تَدَاعَی لَہٗ سَائِرُ جَسَدِہٖ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی)) (صحیح بخاری:۶۰۱۱ ) ’’تو مسلمانوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ،محبت رکھنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا۔ اگر ایک عضو بیمار ہو جاتا ہے تو جسم کے تمام اعضا بخار اور بیداری میں اس کے شریک ہوتے ہیں ۔ ‘‘ ٭ ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالی یہ قحط ختم نہ کرتے تو مَا تَرکتُ أَہل بَیتٍ مِن المُسلمین لَہم سِعۃً إِلا أَدخلتُ مَعہم أَعدادَہُم مِن الفُقراء (الأدب المفرد: باب المؤاساۃ في السَّنَۃ والمَجاعۃ،رقم:۵۶۲) ’’میں ہر صاحب ِحیثیت مسلمان گھرانے میں اتنے ہی غربا داخل کر دیتا۔‘‘ یعنی ایک امیر خاندان میں جتنے افراد ہو تے اتنے ہی غربا کی کفالت ان پر لازم ہوتی۔ اسلامی تکافل کی ہمہ گیریت اسلام کانظامِ تکافل اسلامی اُخوت ،معاشی احتیاج و ضرورت اور تکریم انسانیت پر استوار ہے۔ اسلام اس سوچ کا قطعاً حامی نہیں کہ ہم پرصرف ان مستحقین کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ہمارے ہم عقیدہ ہوں ۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے : ﴿لَا یَنْہٰـکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ