کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 12
وغیرہ کر کے خیال رکھنا۔ ‘‘
اسلام میں تکافل کی اہمیت
اگرچہ قرآن و حدیث میں لفظ تکافل ذکر نہیں ہوا مگر ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، خیر خواہی اورتعاون کرنا دین کا اہم مطالبہ ہے۔
٭ سید قطب شہید رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’بلا شبہ اجتماعی تکافل ہی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور مسلمانوں کی جماعت پابندہے کہ وہ اپنے کمزوروں کے مفادات کا خیال رکھے۔‘‘ (فی ظلال القرآن: ۱/۲۱۲)
٭ دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’اسلام کا مکمل نظام تکافل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ‘‘ (۳/۴۳۳)
٭ ذیل میں اس موضوع کی بعض آیات اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں :
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیعُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ اُولَئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ﴾ (التوبہ:۷۱)
’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، وہ نیکی کا حکم دیتے اور برے کام سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ تعالی نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔‘‘
یعنی اہل ایمان کا شعار یہ ہے کہ وہ ایک دوسر ے کے معاون و مددگار ہیں ۔
٭ تکافل کی روح بھی یہی ہے۔ علامہ محمد رشید رضا رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’اس آیت میں مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی جس دوستی کا ذکر ہے وہ نصرت ، اُخوت اور محبت سب دوستیوں کو شامل ہے۔‘‘ (تفسیر المنار:۱۰ /۴۷۰)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اچانک ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا یعنی اپنی ضرورت کی چیز تلاش کرنے لگا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: