کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 10
معیشت واقتصاد مولانا حافظ ذو الفقار علی ابوہریرہ شریعہ کالج، لاہور شرعی اورمروّجہ تکافل کا تقابلی جائزہ کچھ عرصہ سے بعض مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں کی طرز پر سود ، غرراور قمار پر مشتمل انشورنس کا متبادل نظام بڑے زور وشور سے متعارف کرا رہے ہیں جس کو ’تکافل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جو ادارہ اس کا انتظام وانصرام کر تا ہے، اس کو تکافل کمپنی کہا جا تا ہے جیسے ’پاک کویت جنرل تکافل کمپنی‘ یا ’پاک قطر فیملی تکافل کمپنی‘ وغیرہ۔ ان کمپنیوں کے بقول یہ نظام چونکہ ہر لحاظ سے شرعی اُصولوں کے عین مطابق ہے، اسلئے اس کو ’اسلامی انشورنس‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس کام سے ان اداروں کی غرض نفع کمانا ہے، اس لیے ہم اس کو ’تجارتی تکافل‘ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تَکَافُل کا مفہوم اورشرعی تصور کیا ہے؟ شرعی اورتجارتی تکافل میں بنیادی فرق کیا ہے؟ نیز تجارتی تکافل کی شرعی اساس اور حکم کیا ہے ؟ذیل میں ان سوالو ں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں : تکافل کا معنی ومفہوم ہماری معلومات کے مطابق نہ توقرآن وحدیث میں ’تکافل‘ کا لفظ آیا ہے اور نہ ہی لغت کی قدیم کتب میں یہ لفظ ملتا ہے، البتہ کتاب وسنت میں ایسے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں جن کا مادّہ وہی ہے جو تکافل کا ہے یعنی وہ الفاظ ک ف لسے بنے ہیں ۔ ٭ مثلاً قرآنِ حکیم میں حضرت مریم ؓکی کفالت اور تربیت کے حوالے سے ایک جگہ ﴿فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا﴾ (آلِ عمران:۳۷) ’’پھر اس کے ربّ نے اسے قبول کیا، قبول کرنا اچھا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا۔‘‘ اور دوسری جگہ ﴿إِذْ یُلْقُونَ اَقْلَامَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ﴾ (آل عمران :۴۴) ’’جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے؟‘‘