کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 9
اسے ایوانِ صدر بھیجنا کیا اس قانون میں ترمیم کے لئے اُصولی طورپر کافی ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہئے کہ صدر کو آئین کا آرٹیکل نمبر ۴۵ یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی کی طرف سے کسی فرد کی سزا میں تبدیلی کرسکیں جبکہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں ہو۔ صدر کا یہ اختیار اُن ۲۳ جرائم کی سزاؤں کی حد تک توکسی معینہ مجرم کے لئے معتبر قرار دیا جاسکتا ہے،البتہ جہاں تک اسلامی قوانین مثلاً حدود، قصاص او رتوہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین کا تعلق ہے تو ان میں معافی کا یہ حق قانونی طورپر صدر کو بھی حاصل نہیں او را س کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزائیں اللہ تعالیٰ کی طے کردہ ہیں ، جن میں تبدیلی کا اختیار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کا کوئی ادنیٰ اُمتی ان سزاؤں میں ترمیم یا تخفیف کرسکے۔ اس سلسلے میں بنو مخزوم کی ایک چور عورت کا واقعہ ذہن میں رہنا چاہئے جس کے بارے میں حضرت اسامہ معافی کی درخواست لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے او رآپ نے اس عورت کو معاف کرنے کی بجائے یہ تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ((أتشفع في حد من حدود اﷲ۔ لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطع محمد یدہا)) (صحیح بخاری:رقم ۶۷۸۸) ’’کیا تم حدود اللہ کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ اگر (میری بیٹی) فاطمہ بنت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔‘‘ مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر موصوف بالفرض اس قانون کی منظوری پر دستخط ثبت کربھی دیں ، تب بھی ان اسلامی سزاؤں میں ترمیم نہیں ہوسکتی کیونکہ انہیں اس کا اختیارقانونی طور پر سرے سے حاصل ہی نہیں جیسا کہ قانونِ حد زنا ۱۹۷۹ء کی دفعہ ۲۰ کی شق ۵ اُنہیں اس کا اختیارنہ ہونے کے بارے میں بالکل واضح ہے۔ یہی سوال سپریم کورٹ کے سامنے ۱۹۹۲ء میں اُٹھایا گیا تو فاضل عدالت نے یہ قرار دیا کہ صدر کو حدود اور قصاص کی سزاؤں میں معافی کا کوئی اختیار نہیں ، صدر کو یہ اختیار صرف اس وقت ہے جب موت کی سزا بطورِ تعزیر دی گئی ہو اور متعلقہ مجرم کے لئے اس سزا کا ختم کرنا عوامی مفاد میں ہو۔ ( سکینہ بی بی بنام وفاق پاکستان ،پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء، لاہور ۹۹)