کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 80
نہیں ہے کہ مذہبی رواداری کے نام پر اسلام کے اُصول و قواعد میں ترمیم کرتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ سچ بات کہنے والا ایک بھی ہو تو اسلام کی نگاہ میں وہ ایک پوری اُمت کے مترادف ہے۔﴿إنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً﴾(النحل: ۱۲۰) ’’بے شک ابراہیم علیہ السلام ایک جماعت تھے۔‘‘
لیکن لوگوں کی کثرت اور غلبے سے گھبرا کر ان کی خوشامد اور چاپلوسی میں حق کو چھپانے والے لاکھوں بھی ہوں تو اسلام کی نگاہ میں وہ ایک ذرّئہ بے مایہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ ﴿فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَائً﴾( الرعد: ۱۷) ’’جو راکھ ہے وہ رائیگاں ہی جاتی ہے۔‘‘
لوگوں کی اکثریت کا کیا ہے؟ یہ تو بقول مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ :
’’ماننے پر آئیں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے، انکار پر آئیں گے تو مسیح علیہ السلام کو سولی پرچڑھا دیں گے۔‘‘ (غبارِ خاطر، ۱۷۵)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریک کے آغاز میں جب مشرکینِ مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی کہ آؤ! جسے تم پوجتے ہو اسے ہم بھی پوجیں ، اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے تم بھی پوجو، اور اس طرح ہم اور تم اس کام میں مشترک ہوجائیں تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پوری سورۃ الکافرون نازل فرمائی۔ جس میں واشگاف الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو، اسے میں پوج ہی نہیں سکتا۔( ابن ہشام، ۱/۳۶۲)
لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ جسے مسلمان رہنا ہے اور اسلام کی غلامی کو اپنے گلے کا ہار بنانا ہے ، تو اسلام اس کی زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، اس کے اُصول و قوانین اس کے معیارِ اعتدال پر پورے اُترتے ہوں یا نہ اور اس کے قواعد و قوانین اسے جدید دکھائی دیں یا قدیم اور دقیانوس۔ اسے چاروناچار اور علیٰ الاعلان اپنی مسلمانی کا ڈھول پیٹنا ہی ہوگا اور ڈنکے کی چوٹ پر دنیا کے سامنے اپنے اس عقیدے کا اظہار کرنا ہی پڑے گا کہ
﴿قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ ’’کہہ دو، اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوا جن کو تم نے پوجا اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں ۔تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔‘‘