کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 8
’’میں حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں اسلامی نظریہ کے تحفظ کی ضرور بھرپور جدوجہد کروں گا جو کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔‘‘ مزید برآں آرٹیکل ۱۹ میں آزادیٔ اظہار کے بنیادی حق کو بھی عظمت ِ اسلام کے تابع قرار دیا گیا ہے، ایسے ہی سپریم کو رٹ کے بعض فیصلوں مثلاً ظہیر الدین کیس ۱۹۹۳ء وغیرہ میں کتاب وسنت کو بالاتر قانون قرار دیتے ہوئے تمام انسانی حقوق کو بھی اسلامی حدود وتصورات کے تابع رکھاگیا ہے۔ آئین کے انہی اسلامی تقاضوں کے پیش نظر پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور متعدد اسلامی قوانین مثلاً حدود قوانین، قانونِ توہین رسالت اور قانونِ قصاص ودیت وغیرہ کو اسلام کی بنا پر مدوّن کرکے ملکی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسلام کے حوالے سے ان مذکورہ بالا آئینی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سزاے موت کے خاتمے کی موجودہ ترمیم کو اگر دیکھا جائے تو یہ ترمیم سراسر خلافِ اسلام نظر آتی ہے، کیونکہ اسلام میں نصف درجن سے زائد جرائم پر موت کی سزا موجود ہے اور خود یہ سزائیں دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہیں جیسا کہ اس کی مستند تفصیلات ایکمستقل مضمون میں پیش کر دی گئی ہیں ۔ چنانچہ اس بنیاد پر اُصولی طورپر ہی یہ ترمیم خلافِ اسلام ہونے کے ناطے قابل استرداد ہے! جہاں تک پاکستان میں رائج قوانین کی بات ہے تو اس کی رو سے بھی مختلف جرائم پر موت کی سزا رکھی گئی ہے اور ایسے جرائم کی تعداد ۲۶ کے لگ بھگ ہے مثلاً بغاوت، آئین توڑنا، اور منشیات استعمال کرنا وغیرہ۔ علاوہ ازیں جو اسلامی قوانین ملک میں نافذ ہیں ، ان کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو مندرجہ ذیل تین اسلامی قوانین میں موت کی سزا مقرر کی گئی ہے: ۱۔ قانون توہین رسالت (مجموعہ تعزیرات پاکستان: دفعہ ۲۹۵ سی) ۲۔ قانون قصاص ودیت (مجموعہ تعزیرات پاکستان: دفعہ۳۰۲ ب) ۳۔ حدود قوانین میں سزاے رجم (قانونِ حد زنا۱۹۷۹ء : دفعہ ۵ ب) مندرجہ بالا اعتبارات سے دیکھاجائے تو موجودہ ترمیم کئی پہلوؤں سے ناقابل قبول اور ملک کے بنیادی قانونی ڈھانچے سے متصادم ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزارتِ داخلہ کا موجودہ اقدام اور وفاقی کابینہ کا مبینہ طور پر