کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 79
اسلام کی اسی پاکیزہ تعلیم کا نتیجہ تھاکہ اسلام کی پوری تاریخ غیر مسلموں کے ساتھ اسی اعتدال اور میانہ روی سے عبارت ہے۔ جس وقت اسلام کی وسیع و عریض سلطنت میں بے شمار مذاہب سے وابستہ لا تعداد لوگ آباد تھے، اس وقت بھی کسی سے نہ تو جبراً اسلام قبول کروایا گیا اور نہ ہی کسی خاص مذہب سے وابستہ لوگوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کے لئے علیحدہ حقوق متعین کئے گئے۔ ان کا علیحدہ تشخص تسلیم کیا گیا اور اُنہیں جان و مال اور عزت کے تحفظ کی بھرپور ضمانت فراہم کی گئی۔ حتیٰ کہ دوسرے مذاہب و ادیان سے وابستہ لوگوں کے معابد کی حفاظت و صیانت کا بارِگراں بھی مسلمانوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے کر پوری دنیا کے لئے اعتدال اور میانہ روی کے اعلیٰ نمونے قائم کئے۔ قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ آیت مبارکہ ﴿وَلَولَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ… الخ﴾ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’اسلام کی جنگیں نہ اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے تھیں اور نہ دوسرے مذاہب کے لئے موجب ِاکراہ تھیں ۔ ربّ العالمین نے اسلامی حروب کے متعلق جو وجہ بیان کی ہے وہ قرآنِ مجید میں موجود ہے: ﴿وَلَولَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَ مَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اﷲِ کَثِیْرًا﴾ ( الحج:۴۰) ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا اور بعض کے ذریعے بعض کونہ ہٹا دیتا تب صَوَامع (خانقاہیں )اور بِیَع (گرجے) اور صلوٰت (معابد) اور مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر بہت کیا جاتا ہے، ضرور گرا دی جاتیں ۔‘‘ آیت ِبالا ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اس لئے دی گئی کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم کردیں ، بداَمنی دور کردیں ، پارسیوں ، عیسائیوں ، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو کوئی شخص نہ گرا سکے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں ہی کا حوصلہ تھا کہ اپنی جانیں قربان اور اپنے سینوں کو آماجِ تیروسنان بنا کر غیر مسلمانوں کے معابد کی حفاظت کی ، کیا کوئی اور قوم بھی اپنی بے تعصبی کا ثبوت اس طریقہ سے دے سکتی ہے۔‘‘ (رحمۃ للعالمین، ۳/۳۷۵) چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا سب سے زیادہ اعتدال پسند اور غیر متعصب مذہب ہے۔ لیکن دین کے اُصول و قواعد میں مداہنت اور نرمی کو اسلام اعتدال پسندی نہیں بلکہ منافقت اور غداری سے تعبیر کرتا ہے۔ حالات موافق ہوں یا مخالف، کسی مسلمان کے لئے روا