کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 78
آمدم برسرِمطلب، دوسروں کی خوشنودئ خاطر کے حصول کے لئے اپنے مذہب اور عقیدے کی قربانی دے دینا، یا اس کے بعض ایسے بنیادی اصول و قواعد میں ، جو مخالف کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں ، ترمیم کرلینا یا ان کا حلیہ بگاڑ کر ان کے متعلق معذرت خواہانہ انداز اپنا لینے کو آخر کس ڈکشنری اور لغت کی رو سے اعتدال پسندی اور مذہبی روا داری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ مدمقابل اپنی طے شدہ فکر اور سوچ میں نرمی پیدا کرنا تو درکنار، اس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر ہونے کو تیار نہ ہو۔ میرے خیال میں اس طرزِعمل کو کسی بھی صاحب ِعقل کے نزدیک خوشامد، چاپلوسی اور کاسہ لیسی سے موسوم کرنا زیاہ قرینِ انصاف ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنے مذہب کو مدمقابل کے مذہب اور اپنی مرضی کو مدمقابل کی مرضی کے تابع بنا دیا ہے۔ اب گویا کہ اس کا اپنا تو کوئی مذہب رہا ہی نہیں جس میں وہ روادار اور اعتدال پسند ہونے کا دعویٰ کرے۔ کیونکہ اعتدال اور رواداری سے مراد تو یہ ہے کہ آدمی کواپنے مدمقابل کے ساتھ فکرونظر کے بہت سارے زاویوں میں اختلاف ہو اور بھرپور اختلاف ہو، گویا کہ بالفاظِ دیگر، دونوں میں ذہنی تصادم اور فکری تناؤ کی پوری صورت ِ حال موجودہ ہو،لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو برداشت کریں اور ایک دوسرے کی فکری آزادی کو تسلیم کریں اور بالفرض اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک، دوسرے پرکسی بھی اعتبار سے اختیار و اقتدار رکھتا ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے کو اس کے نظریے اور فکر کے مطابق چلنے کی آزادی دے اور اس کی مرضی کو جبراً اپنی مرضی کے تابع بنانے یا اس کی سوچ کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کرے اور یہی وہ حقیقی اعتدال اور میانہ روی ہے جو صحیح معنوں میں صرف اسلام ہی کا طرۂ امتیاز ہے اور کوئی بھی دوسرا مذہب اس عظیم خوبی میں اس کا شریک و سہیم نہیں ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَااِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ، قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾(البقرۃ: ۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا﴾
’’اس قوم کی نفرت جس نے تم کو کعبہ سے روکا تھا تم کو ادھر کھینچ کرنہ لے جائے کہ تم بھی ان پر زیادتی کرنے لگو۔‘‘ (المائدۃ: ۲)