کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 77
اس نوع کی اعتدال پسندی اور مذہبی رواداری کا سودا کیوں نہیں سماتا تھا !؟ اس وقت کسی صاحب ِدرد کے دل میں یہ خواہش انگڑائی کیوں نہیں لیتی تھی کہ دوسروں کے دین و مذہب کے احترام میں کچھ اسلامی اقدار و روایات کو ترک کردینا چاہئے یا ان میں نرمی پیدا کرلینی چاہئے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کو ہی اعتدال پسندی کے نام سے موسوم کرتے اور اس کے حضور جھک جانے کو ہی مذہبی رواداری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کے قلوب و اذہان میں یہ خناس سمایا ہوا ہے کہ تہذیب ِوقت کے مطابق خود کو ڈھال لینے ہی سے آدمی پر دین و دنیا کی کامیابی کے دَر وا ہوتے ہیں اور پھر یہ لوگ اسلام کے اُصول و قواعد کو بھی اپنی اسی مخصوص سوچ کے تناظر میں ڈھلے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر وہ چیز جسے ہم ’اسلام‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کا اپنا وجود کہاں باقی رہ جائے گا اور پھر خود ہماری علیحدہ شناخت کے لئے کیا جواز باقی رہ جاتا ہے جو اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کی لکیریں کھینچتے اور ’دو قومی نظریہ‘ جیسے نعرے ایجاد کرتے ہیں ۔ یہاں میں شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ کے الفاظ بھی نقل کرنا چاہوں گا جن کا مقام خود ہمارے نام نہاد متجددین کے ہاں بھی مستند ہے اور جن کے کلام کو غلط سہارا بنا کر یہ گروہِ متجددین، علماے کرام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ چنانچہ شاعر مشرق، جواہر لعل نہرو کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’جو لوگ رواداری کا نام لیتے ہیں وہ لفظ رواداری کے استعمال میں بے حد غیر محتاط ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اس لفظ کو بالکل نہیں سمجھتے۔ رواداری کی روح ذہن انسانی کے مختلف نکتہ ہائے نظر سے پیدا ہوتی ہے۔ گبن کہتا ہے کہ ایک رواداری فلسفی کی ہوتی ہے جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر مفید ہیں ۔ ایک رواداری ایسے شخص کی ہے جو ہر قسم کے فکروعمل کے طریقوں کو روا رکھتا ہو، کیونکہ وہ ہر قسم کے فکروعمل سے بے تعلق ہوتا ہے۔ ایک رواداری کمزور آدمی کی ہے جو محض کمزوری کی وجہ سے ہر قسم کی ذلت کو جو اس کی محبوب اشیا یا اشخاص پر روا رکھی جاتی ہے، برداشت کرلیتا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرلے (یہ کیا ہوا کہ) اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو؟ خواہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔‘‘ ( ’فیضانِ اقبال‘ از شورش کاشمیری، ص۱۶۸ و۳۱۳)