کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 76
؎ ایمان مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس دو طرفہ اُلجھن کا حل یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اعتدال اور میانہ روی جو کہ فی الواقع اسلام کے بنیادی اوصاف و خصائل میں شامل ہے ، کا سہارا لیا جائے اور پھر ایسے تمام اسلامی معاملات کو جن میں مغرب کی تقلید مقصود ہو، اپنے خانہ ساز نظریہ اعتدال کی سان پر چڑھا کر ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔
درحقیقت مذکورہ دونوں گروہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم ایسی اقدار و روایات کو چھوڑ دیں جو مغرب کو انتہا پسندی اور شدت پرستی سے متصف دکھائی دیتی ہیں تو مسلمان رہنے کے باوجود ہم مغرب کے منظورِ نظر بن جائیں گے اور ہمارے دامن سے انتہا پسندی کے تمام دھبے دھو دیئے جائیں گے اور ہمارے ماتھے سے بھی روشن خیالی کی شعاعیں پھوٹنے لگیں گی۔ لیکن ازلی و ابدی صداقتوں کی ترجمان، ربّ العالمین کی کتاب کچھ اور کہہ رہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَاالنَّصَاریٰ حَتی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ،قُلْ اِنَّ ھُدَی اﷲِ ھُوَ الْھُدیٰ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ﴾( البقرۃ: ۱۲۰)
’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو، صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اس علم کے بعد، جو اللہ نے بتایا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں ہے۔‘‘
اعتدال کا اسلامی تصور اور جدت پسند دانشور
مجھے یقین ہے کہ آج اگر مغرب کی خالص مادہ پرست تہذیب کی جگہ کوئی اور تہذیب و ثقافت اپنی حشربداماں جلوہ سامانیوں اور غارت گر دین و ایمان روشنیوں کے ساتھ کرۂ ارضی کو خیرہ کئے ہوئے ہوتی تو ہمارے یہ جدت پسند دانشور اسی تہذیب کی زلہ ربائی کو اعتدال پسندی کے دل فریب نام سے موسوم کرتے اور اسی کی خوشہ چینی کو اپنی میانہ روی اور روشن خیالی کا منتہاے کمال تصور کرتے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے عروج کے دور میں کسی کے دل میں