کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 75
ماحول پہلے ہی سے سازگار ہے اور وہ پہلے ہی مذہب کو جلا وطن کرچکے ہیں ۔ لہٰذا اس کامل ذہنی اتحاد کی بنا پر اُنہوں نے یورپ ہی کو اپنی عقیدتوں اور اُمنگوں کا مرکز ٹھہرا لیا اور اسی کو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کا قبلہ و کعبہ جانا، حتیٰ کہ اس حسنِ عقیدت میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کرکے مغرب ہی کو اپنا پیغمبر اور پروردگار قرار دے لیا اور مولانا ظفرعلی خان رحمہ اللہ کے الفاظ میں یورپ کو مخاطب کرکے زبانِ حال سے پکارنے لگے کہ پیغمبر جمال تیری دل رُبا ادا پروردگارِ حسن تیرا چلبلا چلن اب ظاہر ہے کہ اس نوع کے ملحدانہ عقائد و نظریات ایسی قوم میں کہاں جگہ پاسکتے ہیں جس کا دامن ایک ایسے عظیم الشان مذہب کے بندھن میں بندھا ہو کہ جس کی سادہ اور فطرت کے موافق تعلیمات تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہوں ۔ جو اپنے ماننے والوں کو خارزارِ زندگی کے کسی گوشے میں بھی تنہا اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا نہ چھوڑے اور جو اُن کے لئے ایک ایسا مربوط، ہمہ جہت اور عالمگیر نظام تشکیل دے جو دنیوی اور اُخروی دونوں زندگیوں کی فلاح کا ضامن ہو۔ لہٰذا ایسے ناسازگار حالات میں ہمارے یہ جدت پسند دانشور ایک طرف تو خود کو اعتدال پسند اور میانہ رو کہہ کراپنے ان ملحدانہ عقائد و افکار کے لئے وجہ ِ جواز پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف میانہ روی اور اعتدال پسندی کے پس پردہ درحقیقت مسلمانوں کو تقلید ِیورپ کے بے رحم شکنجے میں جکڑنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس قسم کے خطرناک عقائد و نظریات کے حامل تو نہیں ہیں اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنی زندگیوں سے دیس نکالا نہیں دینا چاہتے۔ لیکن گاہے بگاہے بعض معاملات میں مغربی تہذیب کی چکاچوند روشنی سے بھی ان کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں ۔ اب یہ حضرات مسلمان رہتے ہوئے ’نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن‘ کے مصداق نہ تو ایسے اسلامی احکامات سے کھلم کھلی بغاوت کا اعلان کرسکتے ہیں جو مغربی تہذیب کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں اور نہ ہی ایسے احکامات کو اپنا نا ان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ کہیں مغرب ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ’گناہِ کبیرہ‘ سے متصف نہ ٹھہرا دے۔ گویا کہ ایسے میں یہ لوگ بقولِ شاعر :