کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 74
دعویدار اقوام نے دکھایا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر اپنے دین و ایمان سے گہری وابستگی ہی شدت پسندی اور بنیاد پرستی کہلاتی ہے تو پھر اسی نوع کی اعتدال پسندی کو آخر کس نام سے پکارا جائے گا بلکہ یہ تو دوہرا جرم ہوا کہ دعویٰ تو اعتدال کا جب کہ اس کی تبلیغ کے لئے لب و لہجہ ایک متعصب ملا سے بھی زہریلا! اپنے متعلق یہ خوش فہمی کہ ہم میانہ رو ہیں جب کہ کردار ایک شدت پسند سے بھی بدتر۔ غالباً اسی طرح کی صورتِ حال کے متعلق عربی میں کہا گیا ہے کہ فرَّ من المطر وقام تحت المیزاب کہ بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جاکھڑا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اعتدال پسندی اور میانہ روی سے یہی مقصود ہے کہ انسان کے اندر ایسی قوتِ برداشت پیدا ہوجائے جس سے وہ ہر غلط یا صحیح نظریے کے حضور سرتسلیم خم کردے خواہ وہ نظریہ اس کی اپنی فکرسے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو تو آپس کی رنجشوں سے اس نظریے کے وکلا خود کیوں محروم ہیں اور ان کا اپنا لب و لہجہ اس گراں قیمت خوبی سے کیوں ناآشنا ہے؟ اس سوال کاجواب جاننے کے لئے کسی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قول و عمل میں اس تعارض کا سبب دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہ نام نہاد اعتدال پسند دانشور خود بھی اپنے اس نظریے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اعتدال پسندی کو آڑ بنا کر اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں مغرب کے اس خود ساختہ نظریۂ اعتدال کی پُرزور وکالت کرنے والوں میں دو طرح کے لوگ شامل ہیں اور یہ دونوں گروہ اپنی اخلاقی کمزوری کے باعث اصل بات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ پینترے بدل بدل کر اس کے حق میں دلائل دیتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک گروہ میں تو ایسے لوگ شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ زندگی میں قدم قدم پر مذہب سے رہنمائی لینا اور مذہبی حدود و قیود کی جکڑبندیوں میں اُلجھے رہنا ایک بالکل فضول سی بات ہے جس کو خواہ مخواہ لوگوں نے اس قدر شدت کے ساتھ اپنا رکھا ہے اور یہ کہ انسان اپنی نجی زندگی میں بالکل آزاد ہے وہ اپنی بہیمی قوتوں کی تسکین کے لئے جو چاہے ذرائع استعمال کرتا پھرے، اسے کسی طور بھی مذہب کی چاردیواری میں مقید نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ مذہب کا انسان کی عملی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تو چند مخصوص عبادات کے مجموعے کا نام ہے اوربس۔ اب چونکہ ان کے قبلہ و کعبہ یورپ میں اس نوع کے عقائد و نظریات کے لئے