کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 73
لئے پیمانہ بھی وہ منظور کیاگیا جو یورپ کا تیار شدہ ہو اور جس پر Made in Europeکا ٹھپہ لگا ہوا ہو ۔ کیا کہنے اس اعتدال اور انصاف کے۔ گویا کہ ع پہلے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اُمید میں گانٹھ پیچھے ٹھونکی ہے بُنِ ناخنِ تدبیر میں کیل اعتدال کے دعویدار مسلم دانشوروں کا اپنا طرزِ عمل یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ یہ مسلمان دانشور جو اعتدال اور میانہ روی کے غلط مفہوم کو رواج دے کر مسلمانوں کو اسلام اور ایمان سے بیگانہ بنانا چاہتے ہیں ، وہ خود اپنے اس نظریے میں کہاں تک روادار ہیں ۔اگر یہ واقعی اعتدال پسند ہیں تو اعتدال پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے ساتھ اختلاف کرنے والے کی رائے کو وسعت ظرفی اور خندہ پیشانی کے ساتھ سنا جائے اور اس کی رائے کا خیرمقدم کیا جائے۔ اگر اس کے پیش کردہ نظریے سے اتفاق نہ ہو تو ادب و احترام کے تمام قرینوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دلائل کے ساتھ اس کے ذہن میں وارد شدہ اشکالات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ مطمئن ہوجائے تو فبہا ورنہ اس کی ذات کو نشانۂ تنقید بنانے سے بہرصورت اجتناب کیا جائے جبکہ ہمارے ان ’اعتدال پسند‘ دانشوروں کا بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ جو کوئی بھی ان کے اس خانہ ساز نظریۂ اعتدال سے اختلاف کرنے کی جرأت کرتا ہے تو طنزو تعریض کے زہر میں ڈوبے ہوئے تیروں کے ذریعے اس کی ذات کو نشانۂ تنقید بنالیا جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو اس کو بنیاد پرست، قدامت پسند اور جاہل ملّا کے اَلقاب سے نواز کر اپنی تسکینِ طبع کا سامان کیا جاتاہے اور کبھی اس کو جاہل، اُجڈ، گنوار، دور جدید کے تقاضوں سے ناآشنا اور فرقہ پرست ٹھہرا کر اپنی ’اعتدال پسندی‘ اور ’میانہ روی ‘کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاتاہے۔ اُنہیں اس بات کی خبر ہی نہیں ہوپاتی کہ جو کردار کسی مخصوص فرقے اور گروہ سے وابستہ ایک ’بنیاد پرست ملّا‘ ادا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ زہریلا طرزِ عمل یہ ’ملایانِ افرنگ‘ خود اپنے مخصوص نظریات و مقاصد کے لئے اپنائے ہوئے ہیں ۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ہمارے یہ نام نہاد جدت پسنددانشور، فرنگیوں کی محبت میں سرشار ہوکر اسی قسم کے اعتدال اور میانہ روی کو اپنائے ہوئے ہیں جس کا مظاہرہ ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز ہنگامہ میں بابا گورونانک کی نام لیوا اور ’بامسلمان اللہ اللہ، با برہمن رام رام‘ کے نظریۂ اعتدال پر عمل کی