کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 71
کے قلم علم و تحقیق کے نام پر کیا کیا گل فشانیاں اور گل کاریاں کرتے ہوں گے۔ رابرٹ بریفاٹ اپنی کتاب ’تمدنِ عرب‘ میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ’’یورپی مؤرخ مسلمان کو ’کافر کتا‘ سمجھتا ہے اور اس کا احسان ماننے کو تیار نہیں … یورپ کے احیاے نو کی تاریخیں برابر لکھی جارہی ہیں ، لیکن ان میں عربوں کا ذکر موجود نہیں … مؤرخینِ یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد کا سہرا اس یورپی کے سرباندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔‘‘ اسی طرح موسیولیبان شَہِد شاھد من أھلھا کے مصداق اپنی کتاب ’تشکیل انسانیت‘ میں رقم طراز ہے کہ ’’ہمیں اسلام اور پیروانِ اسلام سے تعصب وراثت میں ملا ہے جو اَب ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے … ہماری کم بخت تعلیم نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ ہمارے تمام علوم و فنون کا ماخذ یونان ہے اور یورپ کی تہذیب میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ۔‘‘ ( ایضاً: ص ۴،۵) مزید برآں اسلام اور اہل اسلام کے متعلق ان مفکرین کے منفی طرز عمل اور سوچ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ۱۷۱۲ء میں ایڈرین ری لینڈ نے جو Utreacht یونیورسٹی میں عربی کا پروفیسر تھا، جب اپنی قوم کے صدیوں پر مشتمل اسلام مخالف رویے کو محسوس کیا تو اس کے ذہن میں داعیۂ انصاف نے کروٹ لی اور بقول ڈاکٹر غلام جیلانی برق اس نے مسلمانوں کے متعلق یہ پہلا کلمہ خیر لکھا ہے: ’’مسلمان اتنے پاگل نہیں ، جتنا اُنہیں سمجھا جاتاہے۔‘‘ اب اس مختصر سے جملے میں اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر ایک طرف تو مسلمانوں کے متعلق اپنی قوم کے مجموعی نظریے اور سوچ کی نشاندہی کردی اوردوسری طرف یہ بھی واضح کردیا کہ اگر یہ قوم کسی درجے میں قابلِ رحم بھی ہے تو اس کی ممکنہ حد کیا ہوسکتی ہے؟ اب اس انصاف پر اس کے سوا اورکیا کہا جائے کہ ع یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو، تو کر! لیکن یہ ضرور عرض ہے کہ حضور! آپ کی رضا مسلمانوں کے صدیوں پر مشتمل ان علمی کارناموں پر پردہ نہیں ڈال سکتی جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں دلائل و شواہد سے بے نیاز مہرتاباں کی طرح ضوفشاں ہیں اور جن سے آپ پہلے بھی خوشہ چینی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرنے پر مجبور ہیں بقولِ شاعر ع اسی گھر میں جلایا ہے چراغِ آرزو برسوں