کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 70
گئی اور تمام سرکردہ مسلمانوں کو جن کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی، پکڑکر مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، ان میں سے اٹھائیس ہزار پانچ سو چالیس کو موت کی سزا ملی اور بارہ ہزار کو زندہ جلا دیا گیا، ان کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں تھیں ، سپردِ آتش کردی گئیں ۔ ‘‘( ’یورپ پر اسلام کے احسانات‘ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص ۱۵۷)
ایک طرف تو اہل یورپ کا ’اعتدال‘ پر مبنی یہ طویل نامۂ اعمال ملاحظہ کیجئے اور دوسری طرف یورپ ہی کے ان اہل علم اور ارباب ِ فکر کے طرزِ عمل پر بھی نگاہ دوڑایئے جن کا کام اپنی قوم کی اصلاح کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اہل قلم اور مفکرین کسی بھی قوم کے لئے سرمایۂ افتخار ہوا کرتے ہیں جو اپنی قوم کے حقیقی علل و امراض کا پتہ لگا کر ان کا درست حل تجویز کریں اور ان کی اصلاح کا گراں بار فریضہ سرانجام دیں ، لیکن اہل یورپ کے مجموعی طرزِعمل سے مایوس ہوکر جب ہم اس گروہِ تحقیق سے کوئی ’اعتدال پسنددانشور‘ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو چہار سو ہوکا عالم نظر آتا ہے۔ ان کی تمام تر تحقیقات، کاوشوں اور خامہ فرسائیوں کا ہدف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ تاریخ اور حقائق کا حلیہ بگاڑ کر اسلام اورمسلمانوں کو دہشت گردی، بنیاد پرستی، علم سے تہی دامن اور تہذیب سے بے بہرہ ثابت کیا جائے اور دوسری طرف اپنی ’مہذب‘ قوم کی سیاہ و سفید کارروائیوں کو اعلیٰ کارنامے بنا کر پیش کیا جائے، ان کے لئے دلائلِ جواز مہیا کئے جائیں اور ان کی بدنمائیوں کو علم و تحقیق کا خوش نما اور جاذب لباس میں لپیٹا جائے تاکہ ایک طرف یہ ظلم و سفاکی کی سیاہ داستانیں بھی رقم کرتی رہے اور دوسری طرف ان تمام کارروائیوں کے لئے سند ِجواز بھی اس کے ہاتھ میں رہے۔ اگرچہ ان مفکرین کی علمی بددیانتیوں پر مبنی طویل فہرست میں سے چند ایک مثالیں یہاں بھی ذکر کی جاسکتی ہیں ، لیکن اس خوف کے پیش نظر ان کو نظر اندازکیا جارہا ہے کہ اگر ایک شخص کے ظلم و سفاکی پر مبنی طویل اعمال نامے میں سے چند ایک باتوں کو بیان کردیا جائے تو درحقیقت اس کا اصل مکروہ چہرہ ان ’چند ایک مثالوں ‘ کے پردے کے پیچھے چھپ جایا کرتا ہے اور سننے والا یہ خیال کرتا ہے کہ شاید اس کے اعمال نامے میں یہی چند ایک گنے چنے جرائم ہیں جن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔
البتہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب’یورپ پر اسلام کے احسانات‘ کے حوالے سے چند ایک ایسی عبارتیں پیش خدمت ہیں جو اہل مغرب کی عمومی اور مجموعی ذہنیت کی آئینہ دار ہیں اور جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جواہلِ قلم اس انداز کی سوچ اور ذہنیت کے حامل ہوں ، ان