کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 7
۶/جولائی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر نے اس اہم قانون میں پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا تبدیلی کی خبر پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو مؤرخہ ۱۴/جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کردیا ہے۔ فاضل عدلیہ کے یہی ایسے رویے ہیں جن کی بنا پر ایوانِ صدر کو ان کا کردار محدودکرنے اور از خود نوٹس لینے کے اختیارات کے خاتمے وغیرہ کی قانونی ترامیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا…!! قانونی جائزہ سزاے موت کے قانون میں تبدیلی کے پس منظر، مقصدوہدف اور تازہ ترین صورتحال کے ایک مختصر جائزے کے بعداس مسئلہ کی قانونی صورتحال ملاحظہ ہو : پاکستان کا مقصد ِوجود ہی اسلام کو زندگی کے ہر میدان میں نافذ کرنا تھا، وگرنہ عبادات اور ذاتی زندگی کی حد تک تو مسلمان متحدہ ہندوستان میں بھی اسلام پر عمل کیا کرتے تھے اور آج بھی کررہے ہیں ۔ پاکستان کا بنیادی مقصد انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی احکامات کی روشنی میں بسر کرنا ہے۔ اسی بنا پر آزادی کے فوری بعد انڈیا نے تو اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک قرار دیا، جبکہ پاکستان میں ذاتِ الٰہی کو اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔ بعد ازاں دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا اور ۲ /اے میں کتاب وسنت کو پاکستانی آئین کی بنیاد بنایا گیا۔ دستورِ پاکستان۱۹۷۳ء کی شق نمبر ۲۲۷/ اے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ’’تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے احکام… جیسے کہ وہ قرآنِ حکیم اورسنت ِرسول میں بیان ہوئے ہیں …کے مطابق بنایا جائے گا۔ دستور میں جس طرح اسلام کے احکام کا حوالہ دیا گیا ہے، ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلام سے متصادم ہو۔‘‘ قرآن وسنت کی برتری کو اس طرح بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ تمام اہم قومی عہدیداروں سے ان کے حلف نامے میں اسلام کے تحفظ کا وعدہ لیا گیا جس کا پاکستان کا ہرصدر، وزیر اعظم، وفاقی وزرا، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینٹ، صوبائی گورنرز او رجملہ اراکین ِاسمبلی وسینٹ اپنے عہدہ کے آغاز میں اقرار کرتے ہیں ۔ دستور کے شیڈول ۳ میں اس حلف کے الفاظ ہیں کہ