کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 69
ہمیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ وہ تو اپنے اصل مذہب سے پہلے ہی بہت دور جاچکے ہیں ۔ بلکہ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ان کے اپنے نفس اور خواہش نے جس چیز کو بھی ان کی آنکھوں میں مذہب بنا کر دکھایا ہے، وہ اس میں رواداری اور نرمی کے کہاں تک قائل ہیں ؟ کیا وہ لوگ خود اس مقصد کو پورا کررہے ہیں جس کے تحت اُنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے؟ یعنی تصادم سے گریز، دوسروں کی رائے کااحترام اور اپنے قلوب و اذہان کو ہر قسم کی مذہبی، علاقائی اور نسلی عصبیت سے پاک رکھنا…
اس سوال کاجواب کسی بھی صاحب ِبصیرت شخص پر مخفی نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے سارے نظریے، ساری اصطلاحیں ، سارے الفاظ اور سارے خرخشے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں ، کیونکہ ان لوگوں کے ہاں اگر کوئی مذہب شدت پسند ہے تو وہ صرف اسلام ہے اور بنیاد پرستی صرف مسلمانوں کا وصف ہے۔ تعجب ہے ان دانشورانِ ملت پر جو اس ساری سازش سے واقف ہوتے ہوئے بھی برابران کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں ۔
؎ اسی کی سی کہنے لگے اہلِ حشر
کہیں پرسشِ داد خواہاں نہیں ہے
مرے تھے جن کے لئے…!
اہل مغرب کانسل انسانی سے ملّی، مذہبی، قومی اور علاقائی تعصب کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے دلائل کاطومار باندھنا پڑے۔ بالخصوص حالیہ چند برسوں کے دوران ’تہذیب‘ کے ان علمبرداروں کا چہرہ جس طرح بے نقاب ہوا ہے اور ان کے خانہ ساز نظریۂ اعتدال کی قلعی جس انداز میں کھلی ہے، وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان کا یہ کردار جو بالخصوص نائن الیون کے بعد سے اب تک سامنے آیا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ وہ ’گراں قیمت ترکہ‘ ہے جو اس ’مہذب قوم‘ کو اپنے آباء و اجداد سے تسلسل کے ساتھ بطورِ ورثہ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ صدیوں پر محیط اس رودادِ ظلم میں سے صرف ایک مثال دیکھئے:
’’تاریخ کا یہ بے لاگ تجزیہ ہے کہ اگر مسلمان سپین اور سسلی نہ جاتے تو یورپ بداخلاقی کی اتھاہ گہرائیوں سے کبھی نہ نکل پاتا، لیکن مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ عہد ِحکومت کے بعد جب زمامِ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ آئی تو اسلام، انسانیت اور علم دشمنی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں کہ کائنات کا کلیجہ لرز گیا۔ مسلمانوں سے بالجبر اسلام ترک کروانے کی مہم شروع کی