کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 68
مسلمانوں کو بالخصوص اور دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کو بالعموم اسلام سے دور کیا جاسکے۔ چنانچہ اسی منصوبہ کے تحت موجودہ دور میں جہاں دہشت گردی، بنیاد پرستی اور روشن خیالی جیسی معروف اور مسلمہ اَقدار و روایات کو معانی و مفاہیم کے نئے لبادے اوڑھا دیئے گئے ہیں ، وہاں اعتدال اور میانہ روی جیسی خوبی کے حقیقی معنی کوبھی غلط مفہوم کے لباس میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ باور کروایا جارہا ہے کہ اعتدل پسندی سے مراد یہ ہے کہ ہر جائز وناجائز نظریے کو صحیح سمجھا جائے، ہر روا و ناروا عقیدے کو برداشت کیا جائے اور ہر غلط اور صحیح اندازِ فکر کودرست تسلیم کر لیا جائے، اگرچہ دلائل و شواہد کی تمام کڑیاں اس کے خلاف گواہی دے رہی ہوں ۔ بقولِ اکبر الہ آبادی ؎ مغوی کو بُرا مت کہو، ترغیب ہے یہ میں کس سے کہوں ، نفس کی تخریب ہے یہ شیطان کو ’رجیم‘ کہہ دیا تھا اِک دن ایک شور اُٹھا، خلافِ تہذیب ہے یہ !! جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات مغرب سے درآمد شدہ کسی بھی نظریے اور سوچ کی تشہیر و تبلیغ میں غیروں سے بھی نہ جانے کتنے ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اس طرزِ عمل کو کس نام سے موسوم کیا جائے کہ یہ حلقۂ یاراں میں تو اپنے اسلام اور ایمان کے مماثل کسی کے ایمان کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن بیگانوں سے نگاہیں دوچار ہوتے ہی ان کو اپنا وہ ایمان بھی ایک ناقابلِ برداشت بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے جس کو خود ان کے اپنے قلوب و اذہان نے اپنے مخصوص پیمانے کے ذریعے قرآن و سنت سے کشید کیا ہوتا ہے۔ ہمارے یہ دانشور اسی مخصوص سوچ اور نظریے کے تحت اعتدال کے اس مفہوم کا لوگوں کو درس دے رہے ہیں جو اہل مغرب کو سجھائی دیا ہے اور وہ مفہوم یہ ہے کہ اپنے مذہب، عقیدے اور سوچ سے اسی قدروابستگی رکھنی چاہئے جس سے ہر مسلک، ہر عقیدے اور ہر مذہب سے وابستہ شخص کی تسکین کا سامان ہوسکے، جو ہر کسی کے ہاں قابل قبول ہو اور بعض ’ناگزیر‘ قسم کے حالات میں اپنے رہے سہے عقیدہ سے بھی دستبردار ہونا پڑے تو بلا تامل یہ قربانی بھی دے دینی چاہئے۔ یہ نظریہ کہاں تک درست ہے؟ اس سے بین الملّی مصالحت کے کتنے امکانات اُبھرتے ہیں ؟ اور یہ مذہب سے بیزارلوگوں کے لئے خوشحالی کے کتنے پہلو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے؟ فی الحال ان سوالات کو نظر انداز کیجئے، سردست صرف اتنی بات پر غور کیجئے کہ اس نظریے کے اوّلین خالق خود کہاں تک اپنے اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں ؟