کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 67
دورِ حاضر محمد سرور[1]
اعتدال پسندی یا مغرب پرستی ؛ چند تاثرات
موجودہ دور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فکری یلغار کا دور ہے۔ ہمارے حریف نے جب ہمیں میدانِ جنگ میں ناقابلِ تسخیر پایا تو اس نے نظریاتی محاذ پر ہمیں فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ دشمن کا یہ وار کارگرثابت ہوا اور وہی قوم جوشمشیر و سناں کے میدان میں ناقابلِ شکست تھی فکری محاذ پر دشمن کے سامنے نیم بسمل آہو کی طرح ہوکر رہ گئی۔ چنانچہ اس نے جس نظریے اور سوچ کوجس انداز میں بھی ہمارے ذہنوں میں اُتارنا چاہا، ہم نے اسے بسروچشم قبول کیا۔ اس نے جس چیز کو اچھا کہا، ہم نے بھی اس کے لئے سند ِتحسین جاری کردی اور جس چیز کو قابل نفرت گردانا، ہم اس سے اپنا دامن بچانے کو اپنے لئے لائقِ صد افتخار جاننے لگے۔ حتیٰ کہ اپنی اَقدار و روایات کو فراموش کرکے فرنگی تہذیب کے دامِ فریب میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے اور اس کے اعضاے ترکیبی اور عارض و رخسار کی رنگینی کچھ اس انداز سے جی کو بھائی کہ جسم کا انگ انگ سرشاری و سرمستی کے عالم میں پکار اُٹھا ؎
سرمایۂ نشاط تری ساقِ صندلی
بیعانۂ سرور ترا مرمریں بدن
چنانچہ یہ بات بھی اسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی ہر منفرد خوبی اور اچھائی کو جو اسلام اور اہل اسلام کے لئے سرمایۂ ناز ہو، کسی ایسے مفہوم میں رنگ دیا جائے جس سے مسلمانوں کو روحِ اسلام سے دور لے جاکر لاشعوری طور پر اپنے مخصوص نظریات و مقاصد کا ہم نوا بنا لیا جائے اور دوسری طرف ہر ایسی برائی کو جسے اپنانے سے نوعِ انسانی کی اکثریت گریزاں ہو، معنی و مفہوم کے کسی ایسے سانچے میں ڈھال دیا جائے جس سے خود مسلمانوں کو اپنا دامن اس برائی میں ملوث نظر آنے لگے اور یوں اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت کی وہ خوبیاں جو اَزل سے انسان کی سرشت میں داخل ہیں ، ان کا رخ اسلام کے خلاف موڑ کر
[1] متعلم مرکزالتربیۃ الاسلامیۃ، فیصل آباد