کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 66
اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اسلام کے مکمل نظام سے واقف نہیں ہیں ، صرف بدنام کرنے کے لئے ایسے اعتراضات پیدا کرتے ہیں ۔ مثلاً ٭ قصاص میں مقتول کے ورثا اس قدر زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی ادائیگی نا ممکن ہو، اس لحاظ سے یہ قاتل پر زیادتی کے مترادف ہوجاتا ہے۔ جبکہ یہ اعتراض لاعلمی کا نتیجہ ہے ، اوّل تویہ اعتراض مقتول پر ہونے والے ظلم کو نظر انداز کرنے یا کمتر جاننے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے نیز قرآن نے اتباع بالمعروف کی شرط لگا کر معروف خون بہا کی شرط بھی عائد کردی ہے۔ ٭ پھر اسلام نے قصاص کو معاف کرنے کا اِمکان بھی پیدا کیاہے، اور اس سلسلے میں قصاص معاف کرنے کی شریعت میں بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((مَنْ تَصَدَّقَ بِدَمٍ فَمَا دُونَہُ کَانَ کَفَّارَۃً لَہُ مِنْ یَومِ وُلِدَ إِِلَی یَومِ تَصَدَّقَ بِہِ)) (مجمع الزوائد ۶/۳۰۲ رجال إسنادہ رجال الصحیح) ’’جس نے خون یا اس سے کم کا صدقہ کیا (مراد اپنا خون وغیرہ معاف کردیا) یہ صدقہ اس کے لئے اس کے پیدائش کے دن سے لے کر صدقے کے دن تک کا کفارہ ہے۔‘‘ ٭ اسلام نے قصاص کے خاتمے کیلئے ورثا میں سے ہر ایک کو معافی کا استحقاق دیا ہے، حتیٰ کہ یہ حق خواتین بھی استعمال کرسکتی ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمانِ نبو یؐ روایت کیا ہے: ((عَلَی الْمُقْتَتِلِینَ أَنْ یَنْحَجِزُوا الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ وَإِنْ کَانَتِ امْرَأَۃ)) ’’مقتول کے ورثا کو چاہئے کہ وہ قصاص معاف کردیں اور یہ حق قریب سے قریب تر وارث کو حاصل ہے، اگرچہ وہ عورت ہی ہو۔‘‘ (صحیح سنن ابو داود:۴۵۳۸) ٭ اسلام حاکم کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ مقتولین کے ورثا کو قصاص کی بجائے دیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہم نامی شخص سے قصاص لینے پر لیث قبیلہ کو بڑی محنت سے راضی کیا کہ وہ قصاص کی بجائے دیت لینے پر آمادہ ہوجائیں ، آخرکار ان کے آمادہ ہوجانے پر ان کو غیرمعمولی دیت دے کر قصاص کا خاتمہ کروالیا۔ (صحیح سنن ابو داود:۳۸۰۱)