کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 65
((اقتلوہم وإن وجدتموہم متعلقین بأستار الکعبۃ : عکرمۃ بن أبي جہل وعبد اﷲ بن خطل ومقیس بن صبابۃ وعبد اﷲ بن سعد بن أبي السرح))
’’اگر یہ لوگ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی مل جائیں تو ان کو قتل کردیا جائے: عکرمہ بن ابوجہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ ا ور عبد اللہ بن ابو سرح۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۸۴۶)
ان میں آخر الذکر شخص کا جرم ارتداد تھا۔ (فتح الباری:۱۲/۹۵)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’نبی رحمت‘ ہونے کے باوجود ارتداد، حرابہ اور فساد فی الارض کی اس قدر سنگین سزا دی کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ ان لوگوں کا جرم بڑا سنگین تھا، اس سزا کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے تاکہ اسلام کے تصورِ سزا کے بارے میں ہمارے ذہن میں جنم لینے والے شبہات واعتراضات رفع ہوسکیں اور ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل پر ایمان لاتے ہوئے ان سزاؤں کو نعوذ باللہ وحشیانہ یا سنگین ہونے کا خیال جڑ سے اُکھاڑ دیں ۔
یہ واقعہ مختصراً یہ ہے کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے، اور بیت المال کے نگران کو قتل کرنے کے بعد بیت المال کے اونٹ ہنکا کر لے گئے تو
فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَرْسَلَ فِي آثَارِہِمْ فَأُدْرِکُوا فَجِيئَ بِہِم فَأَمَرَ بِہِم وَقُطِّعَتْ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ وَسَمَرَ أَعْیُنَہُمْ ثُمَّ نَبَذَہُم فِي الشَّمْسِ حَتَّی مَاتُوا قَالَ أَبُوقِلاَبَۃَ وَأَيُّ شَيئٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَئِ إِرْتَدُّوا عَنْ الإِسْلاَمِ وَقَتَلُوا وَسَرَقُوا (صحیح بخاری: ۶۸۹۹)
’’یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے ان کے پیچھے صحابہ کو بھیجا اور وہ پکڑلیے گئے چنانچہ اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور ان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں ، پھر اسی طرح اُنہیں دھوپ میں پھینک دیا اورآخر وہ مرگئے۔ ابوقلابہؓ کہتے ہیں کہ جو کام اُنہوں نے کیا تھا، کیا ا س سے بڑھ کر کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ وہ اسلام سے مرتد ہوئے، قتل وغارت کی اور چوری کا ارتکاب کیا۔‘‘
سزاے قتل اور شریعت کی سہولت
اسلام میں سزاے قتل اور دیگر سزاؤں کے وحشیانہ ہونے پر اہل مغرب کی طرف سے کئی