کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 64
’’جب دو خلیفوں کی بیعت کی جانے لگے تو دوسرے کو قتل کردو۔‘‘
ایسے ہی زندیق اور تارکِ نماز وغیرہ کی سزا کے بارے میں بعض علما کا موقف ہے کہ اُنہیں اپنے فعل پر اصرار کی وجہ سے آخر کار قتل کیا جاسکتا ہے۔ نیز مسلمانوں کے خلاف تلوار اُٹھانے والے کا خون بھی فرمان نبوی کی ر و سے رائیگاں ہے۔ (صحیح سنن ابو داود :۳۷۷۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود قتل کی سزا دلوانا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف قرآنِ کریم میں بیان ہوا کہ آپ رحمت للعالمین ہیں ۔(الانبیاء: ۱۰۷) لیکن اس عظیم وصف’ مجسمۂ رحمت‘ ہونے کے باوجود مجرموں سے آپ رحمت کا سلوک کرنے کی بجائے ان کو قرارِ واقعی سزا دیا کرتے کیونکہ اوّل توان سزاؤں کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان میں ترمیم وتنسیخ کا کوئی اختیار نہیں تھا، علاوہ ازیں ان سزاؤں کا اجرا آخرت میں ان مجرموں کے لئے مغفرت کا سبب قرار پاتا ہے، جیسا کہ آغاز میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم گزر چکا ہے۔ یوں بھی سدذریعہ کے طورپر یہ سزائیں دے کر ہی معاشرے سے جرائم کا قلع قمع کیا جانا اور دوسرے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ آپ کی زندگی میں ایسے واقعات بے شمار ہیں جب آپ نے خود قتل کا حکم صادر فرمایا، بطورِ مثال
٭ رجم کی سزائیں آپ نے خود صادر فرمائیں ۔ آپ کے حکم سے رجم کی سزا پانے کے واقعات کم وبیش ۸ ہیں جن کی تمام احادیث کا مکمل متن اورترجمہ محدث کے شمارئہ دسمبر ۲۰۰۶ء میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔
٭ توہین رسالت کے ۱۶ واقعات میں گستاخوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے ۵ واقعات میں ۹ مردوں اور ۲ عورتوں کے قتل کا آپ نے خود حکم صادر فرمایا اور باقی ۱۱/ واقعات میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے ازخود اُنہیں قتل کیا توآپ نے واقعہ کی تفتیش کے بعد گستاخی ثابت ہونے پر ایسے گستاخوں کے قتل کو رائیگاں قرار دیا۔ بلکہ ۴ ملعون گستاخ تو ایسے ہیں ، جن کے قتل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ صحابہ کی مہمات روانہ کیں ۔ ایسے تمام واقعات کی تفصیل کے لئے راقم کا مضمون دیکھئے: ’’احادیث میں توہین رسالت کے واقعات اور ان کی سزائیں ‘‘ ( محدث :مارچ ۲۰۰۸ء)
٭ چار نامراد لوگوں کے بارے میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ