کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 61
قرآنِ کریم کی ایک اور آیت میں سزاے موت کے جرم نمبر ۳ اور ۴ یکجا بیان ہوئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سزائیں صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ یہود یت وعیسائیت میں بھی موجود تھیں ، ملاحظہ فرمائیں : ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا﴾ (المائدۃ: ۳۲) ’’ اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی او روجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ اس آیت میں سزاے موت کا پہلا جرم جان کے بدلے جان اور دوسرا جرم فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان روایت کرتی ہیں : ((لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ إلا في إحدٰی ثلاث: رجل زنیٰ بعد إحصان فإنہ یرجم ورجل خرج محاربًا باﷲ ورسولہ فإنہ یقتل أو یصلب أو ینفی من الأرض أو یَقتل نفسا فیُقتل بھا)) (سنن ابوداود:۴۳۵۳، قال الالبانی:’صحیح‘) ’’کسی مسلمان کا خون بہاناجائز نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، مگر تین صورتوں میں اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے، اس جرم پر اسے سنگسار کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ/ بغاوت کرے تواسے قتل کیا جائے گایا اسے سولی دی جائے گی یا اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل کردے تو اس پر اسے بھی (قصاص کے طور پر) قتل کردیا جائے گا۔‘‘ موت کی مندرجہ بالا سزائیں تومتفقہ ہیں ،البتہ شریعت ِاسلامی میں موت کی بعض سزائیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں علماے کرام میں اتفاق نہیں ، یا وہ جرائم ایسے ہیں جن کی سزا اوّل مرحلہ میں توموت نہیں ، البتہ آخرکاراُنہیں سزاے موت دی جائے گی یا دی جاسکتی ہے۔