کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 6
پرویز مشرف رحمن ملک کی کارکردگی سے انتہائی مطمئن ہیں اور ان کا اس اہم ذمہ داری کو ادا کرنا پرویز مشرف کی پیپلز پارٹی سے اسی مفاہمت کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ متعدد سیاسی معاملات میں قوم بھگت رہی ہے۔ وزارتِ داخلہ کی یہ سمری وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی جہاں سے قانونی مشاورت کے لئے اسے وزارتِ قانون میں بھیج دیا گیا۔ وزارتِ قانون نے اس تبدیلی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے قانونی ڈھانچے، عدالت ِعظمیٰ کے فیصلوں اوراسلامی شریعت کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نظرانداز کردینے کی ہدایت کی لیکن وزارتِ قانون کے مشورہ کو قبول کرنے کی بجائے وفاقی کابینہ نے ۲۱/جون کو بے نظیر بھٹو کے یومِ ولادت کے موقع پر قوم کو خوش خبری دینے کے بہانے سزاے موت کے قانون میں ہی تبدیلی کردی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں موجود ۷ ہزار کے قریب سزاے موت پانے والے مجرموں کی سزا عمر قید میں تبدیل ہو گئی اور اس مسودہ کو دستخط کے لئے ایوانِ صدر بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ وفاقی کابینہ کے ترجمان سے اس سلسلے میں جب رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ بدھ ۳/جولائی کو کابینہ کے کراچی اجلاس میں سزاے موت کی تبدیلی کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں آیا اور کابینہ نے ا س سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، جب کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے اس مسئلہ کو وفاقی کابینہ کے فیصلہ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ (جنگ: ۶/جولائی ) وفاقی کابینہ کے ترجمان کے اس بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سزاے موت کے قانون میں حالیہ تبدیلی کابینہ کو اعتماد میں لینے کی بجائے درحقیقت پرویز مشرف کے اشاروں پر ہو رہی ہے کیونکہ اس کے دیگر کردار مثلاً سید کمال شاہ اور رحمن ملک اُنہی کے گرد ہی گھومتے ہیں ، اور مشرف اپنے مغربی سرپرستوں کوخوش کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی استعمال کررہے ہیں ، البتہ وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی کی زبان سے ۲۱/ جون کے موقعہ پر یہ اعلان کرنے کی بنا پر پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اس کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتی۔ ایک طرح ایوانِ صدر اور حکومت کی تو یہ صورتحال ہے، ان حالات میں عدالتی نظام اور دستوری تقاضوں کو برقرار رکھنے کے لئے عدالت ِعظمیٰ کو ازخود حرکت میں آنا پڑا اورمؤرخہ