کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 59
مسلمان اپنا دین بدل لے، اسے قتل کردو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی مسلمان شخص کا خون حلال اور مباح نہیں ہوتا مگر تین صورتوں میں : ایک یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو، دوسرے یہ کہ وہ کسی جان کا قاتل ہو اور تیسرے یہ کہ وہ دین کو چھوڑ دے، یعنی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے اور اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ مرتد واجب ِقتل ہے۔‘‘ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱۷ اور سورۃ المائدۃ کی آیت ۵۴ میں بھی مرتد کی وعید موجود ہے۔ ٭ یاد رہے کہ دستورِ پاکستان میں آئین توڑنے کی سزا موت قرار دی گئی ہے۔(دفعہ ۶) ایسے ہی ملک سے بغاوت کی سزا بھی قتل مقرر کی گئی ہے۔ (دفعہ ۱۲۳/اے) 2. شادی شدہ زانی کی سزا رجم[1] ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((البکر بالبکر جلد مائۃ ونفي سنۃ والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم)) ’’ غیر شادی شدہ کوسو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم:۱۶۹۰) ٭ یاد رہے کہ یہی سزا پاکستان کے فوجداری قانون میں بھی حد زنا آرڈیننس کی دفعہ ۵ کے کی شق ۲ کے تحت موجود ہے اور تحفظ ِخواتین ایکٹ ۲۰۰۶ء میں اس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ 3. قصاص:قرآنِ کریم میں واضح طورپر اللہ کا فرمان ہے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ٭ وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُ۔ٓولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۷۸،۱۷۹ ) ’’ایمان والو!تم پر قتل کے سلسلے میں قصاص فرض کیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد مرد کو قتل کیا جائے اور غلام کے بدلے غلام کو، عورت کے بدلے عورت کوقتل کیا جائے۔ البتہ جس کو اس کے بھائی نے معاف کردیا تو معروف طریقے سے اس کا خون بہا مقرر کرنا اور احسان مندی
[1] ان دونوں سزاؤں کی تفصیل اور متعلقہ آیات و احادیث کے لیے محدث کے دو مستقل مضامین ملاحظہ فرمائیں : قتل مرتد ( فروری 2007ء ) اور حد رجم ( دسمبر 2008ء)