کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 58
(جمعرات کو) اسے ۱۰۰ کوڑے مارے اور (جمعہ کو ) رجم کردیا۔‘‘
(مسند احمد: ۱/۱۰۷،۱۴۳، صحیح بخاری: ۶۸۱۲ ، إرواء الغلیل: ۲۳۴۰ ’صحیح ‘)
الغرض یہ اسلام ہی ہے جس نے جرائم کا دنیا وآخرت دونوں میں مؤاخذے کا تصور دے کر معاشرے سے جرائم کا قلع قمع کیا، کیونکہ ظاہری وسائل، پابندیاں اور قوانین آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اس قابل نہیں کہ انسان کو جرم سے روک سکیں ، اِلا یہ کہ وہ خود رب کے سامنے اپنے مؤاخذے سے فکر مند نہ ہو جیسا کہ جدید ممالک میں جرم وسزا کے اعداد وشمار اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ اس کے بالمقابل کتب ِحدیث میں خود اعترافِ جرم کے متعدد واقعات موجود ہیں ، جہاں عند اللہ مسؤلیت سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیا۔ او راس دور میں بھی جہاں جہاں اسلامی قانون اپنی روح کے ساتھ نافذ ہے، وہاں جرائم کی شرح دنیا بھر سے حیرت انگیز حد تک کم ہے۔
موجب ِقتل جرائم
مذکورہ بالا تمہیدی نکات کے بعد ان جرائم کا مختصراً تذکرہ جن کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ نے قتل کی سزا عائد کی ہے :
1. جو شخص بھی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجاے تو اس کی سزا قتل ہے جیسا کہ واضح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :((من بدَّل دینہ فاقتلوہ)) (صحیح بخاری: ۲۵۲۴)
’’جو مسلمان بھی اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کردو۔‘‘
الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی أحکام المُرتد کے تحت مرتد کی سزا قتل ہونے پر اجماعِ اُمت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اتفق العلماء علی وجوب قتل المرتد لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم :((من بَدَّل دینہ فاقتلوہ)) وقولہ علیہ السلام: ((لایحل دم امریٔ مسلم إلا بإحدٰی ثلاث: الثیب الزاني،والنفس بالنفس،والتارک لدینہ المفارق للجماعۃ)) وأجمع أھل العلم علی وجوب قتل المرتد۔ (جلد۶/ صفحہ ۱۸۶)
’’علما کا اس پر اتفاق ہے کہ مرتد کا قتل واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو