کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 57
کا حامل ہے، اس لئے اس کے بعض واقعات یہاں پیش کئے جاتے ہیں : ۱) ایک صحابی ماعز رضی اللہ عنہ بن مالک سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا تو دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر اُنہوں نے تین مرتبہ اپنے آپ کو پاک کرنے کی فریادکی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فیم أُطہِّرک؟)) (صحیح مسلم:۱۶۹۵) میں تجھے کس سے پاک کروں ؟ تو حضرت ماعز رضی اللہ عنہ نے زنا کا اعتراف کیا ، چنانچہ تصدیق وتاکید کے بعد اُنہیں نبی کریم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔ ۲) ایسے ہی ایک غامدیہ عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ عورت دو تین سالوں میں کئی بار نبی کریم کے پاس آئی اور آپ سے سزا پانے کی گذارش کی، آخر تمام تقاضے پورے ہوجانے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم:۱۶۹۵) ۳) سمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ اس نے ایک اونٹ کی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے آپ کو پاک کرنے اور سزا پانے کے لئے پیش کردیا ۔چوری کی تصدیق ہوجانے کے بعد جب اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو راویٔ حدیث ثعلبہ کہتے ہیں کہ وہ زبان سے یوں کہہ رہا تھا : الْحَمْدُ ﷲِ الَّذِي طَہَّرَنِي مِنْکِ أَرَدْتِ أَنْ تُدْخُلِي جَسَدِيَ النَّارَ (ضعیف سنن ابن ماجہ : رقم۵۶۲) ’’ تمام تعریفیں اس ذات کے لئے جس نے مجھے (اے ہاتھ) تجھ سے پاک کردیا، تو چاہتا تھا کہ میرے سارے جسم کو آگ میں داخل کردے۔‘‘ ۴) نبی کریم کے سامنے ایک چور کو لایا گیا جو چوری کا خود اعتراف کررہا تھا لیکن اس سے مالِ مسروقہ برآمد نہیں ہوسکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ میں تمہیں چور نہیں خیال کرتا، لیکن وہ شخص اپنے چور ہونے پر باربار اصرار واعتراف کرتا رہا۔ چنانچہ اس بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوا کر اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعاے خیر کی۔ (سنن نسائی: رقم ۴۸۷۷) ۵) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک عورت شراحہ نے اعترافِ زنا کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو ٹالنے کی کوشش کی اور کہا : ’’شاید کہ تجھ سے زنا بالجبر ہوا ہو، شاید کہ تیرا شوہر تیرے پاس آیا ہو، شاید یہ اور یہ لیکن وہ عورت بولی: نہیں ۔سو جب اس عورت نے بچہ جن دیا جو اس کے پیٹ میں تھا تو آپ نے