کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 55
کریم ہی بنتا رہتا ہے، جس میں صراحت کے ساتھ شریعت ِمطہرہ کے مسلمات، اساسی عقائد اور مقامِ نبوت کے تقاضے بیان کردیے گئے ہیں ۔ اس لئے اللہ کی اس عظیم نعمت کا ملت کو ہردم احساس رہنا چاہئے۔ اسی ’نسخہ کیمیا‘ کی بنا پر ملت ِاسلامیہ کو اس کی اساسات سے ہٹانا ممکن نہیں ۔ کوئی مسلمان کوتاہی یا لاعلمی میں کوئی گناہ تو کرسکتا ہے، لیکن جونہی قرآن مجید کی کوئی آیت یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان، جس کی اطاعت کا تقاضا خود قرآنِ مجید ہم سے کرتا ہے، مسلمان کے سامنے آتا ہے، اس کی جبینِ نیاز جھک جاتی ہے۔ 3. علاوہ ازیں یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ شرعی اور وضعی (انسانوں کے خودساختہ) قانون کے مزاج میں بنیادی طورپر ہی کافی فرق ہے۔ چنانچہ شارع کریم (اللہ تعالیٰ) کے ہاں ظالم کے حقوق اور شرف وعزت کے تحفظ کی بجائے مظلوم ومقتول سے انصاف کے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ قتل اور ظلم وستم کا یہ سلسلہ آگے بڑھنے کی بجائے بڑی سختی سے روک دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے قصاص لینے (قاتل کو جواباً قتل کرنے ) کو زندگی سے تعبیرکیا ہے۔ (البقرۃ:۱۷۹) اوردیت وصول کر لینے کے بعد کسی کو قتل کرنے کی نبی کریم نے انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے کہ میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ (السنن الکبریٰ از امام بیہقی: رحمہ اللہ ۸/۵۴) جبکہ انسانوں کے خودساختہ قانون میں تمام رعایتیں اور حقوق کو مجرم کے لئے مخصوص کرتے ہوئے مظلوم کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہاں ہمدردی اور انسانی حقوق کا فائدہ مظلوم کو ملنے کی بجائے ظالم اور مجرم کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرم کے انسانی حق کے تحفظ کے لئے دنیا بھر میں سزاے موت کے خاتمے کی تحریک چلائی جارہی ہے جب کہ شریعت کی نظر میں جو شخص اپنے شرفِ انسانیت کا خودتحفظ نہ کرے ، تو اس آدمی کو ہمدردی اور احترام کا کوئی حق حاصل نہیں ، اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے ایسا شخص خود اپنے شرف اور حق کو ضائع کربیٹھتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ﴿وَمَنْ یُّہِنِ اﷲُ فَمَا لَہُ مِنْ مُکْرِمٍ﴾(الحج:۱۸ ) ’’جس کو اللہ رسوا کردے تو اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ہے۔‘‘ ایسے ہی قرآن کریم نے زنا یا دیگر جرائم کی سزاؤں میں یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ﴿وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ ( النور:۲)