کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 54
فِيْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء: ۶۵) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرے ربّ کی قسم، یہ لوگ کبھی بھی ایمان والے نہیں بن سکتے حتیٰ کہ آپ کے فیصلوں کو دل وجان سے تسلیم نہ کرلیں ، پھر ان کے دلوں میں اس پر کوئی خَلش باقی نہ رہ جائے جو آپ نے فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور یہ اس کو صمیم قلب سے تسلیم کریں ۔‘‘ ایسے ہی قرآن کریم کی ایک اور آیت ہے : ﴿وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَا مُوْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا﴾ ’’ کسی مؤمن مرد یا عورت کو یہ لائق نہیں کہ جب اللہ او راس کا رسول اس کے لئے کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو پھر اپنے معاملوں میں وہ اپنی مرضی استعمال کریں ۔ اور جو شخص اللہ اور ا سکے رسول کا نافرمان ہے توایسا شخص بلاشبہ واضح گمراہی کا شکار ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۳۶) مندرجہ بالا آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے شرعی طورپر یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا واضح فیصلہ مل جانے کے بعد اپنی من مانی کرتا پھرے، قرآنِ کریم کی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے قسم اُٹھا کر کہا ہے کہ ایسا شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ 2. یہاں اس امر کا اظہار بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے دائمی رہنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ شریعت ہر دور میں محفوظ وکامل برقرار رہتی تاکہ اس پر عمل بجا لانا ممکن رہتا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا امت ِمحمدیہ پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت (شریعت) کی حفاظت کی ذمہ داری انسانوں پر ڈالنے کی بجائے خود اپنے اوپر لی ہے۔ اسلام کا یہی اعجاز اس کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتا ہے اور فی زمانہ قرآنِ کریم کی یہی حفاظت ملت ِاسلامیہ کی وہ بنیادی متاع ہے جس کی بنا پر زوال کے بدترین دور میں بھی مسلمان قرآن کی بنا پر دوبار ہ اصل دین کی طرف پل بھر میں لوٹ سکتے ہیں ۔ چونکہ باقی شرائع میں حفاظت کا یہ انتظام موجود نہیں ، اس لئے آج ان پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ ایک خواہش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سزاے موت کا خاتمہ اور اس نوعیت کے دیگر ایسے بے شمار اقدامات جن کا تقاضا غیر مسلم اقوام مسلمانوں سے کرتی رہتی ہیں ، ان کی ایسی مذموم خواہشات کی راہ میں بنیادی رکاوٹ قرآن