کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 52
شرط5:باپ جس چیز کو اپنی ملکیت میں لے رہا ہے وہ چیز بعینہٖ موجود ہوکیونکہ باپ اپنے بیٹے کے قرض کا مالک نہیں بن سکتا اور باپ کسی بھی چیزکو قبضہ میں لینے سے پہلے اس میں تصرف کا اختیار نہیں رکھتا، جیسا کہ احادیث میں کسی شے کو قبضہ میں لینے سے قبل اس میں تصرف کرنے سے صریح ممانعت وارد ہوئی ہے۔ جہاں تک باپ کی ملکیت کے ثبوت کا تعلق ہے تو یہ ملکیت اس کی نیت یا قول سے ثابت ہوجائے گی۔ مثلاً باپ کسی چیز کو اُٹھا لے اور دل میں نیت کرے کہ اب یہ میری ملکیت ہے یا زبان سے کہے کہ میں فلاں چیز کا مالک ہوں ۔ شرط6: قول یا نیت سے قبضہ کرلینے سے پہلے بیٹے کے مال میں باپ کا تصرف غیر صحیح ہے، اگرچہ غلام ہی آزاد کرنا ہو۔ کیونکہ بیٹے کی اپنے مال پر مکمل ملکیت ہے اور وہ اپنے مال میں تصرف کا اختیار رکھتا ہے، اپنی لونڈی کے ساتھ مباشرت کرسکتا ہے۔ اگر لونڈی کی ملکیت باپ اور بیٹے میں مشترک ہو تو وہ ایسی لونڈی کے ساتھ بالکل اسی طرح مباشرت نہیں کرسکتا جیسا کہ کسی اور شخص کے ساتھ مشترکہ لونڈی سے وہ مباشرت نہیں کرسکتا۔ الغرض باپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس شے کو اپنی ملکیت بنانا چاہتا ہے، اسے پہلے اپنے قبضہ میں لے پھر اس میں تصرف کرے۔ بنا بریں باپ اپنے بیٹے کے قرض یا جرمانے کا مالک نہیں بن سکتا، کیونکہ وہ ابھی تک قبضہ میں نہیں آیا۔ مذکورہ شرائط کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی شرط ہی اہم ترین شرط ہے جبکہ بقیہ پانچ شرائط کا ہر حال اور جملہ معاملات میں لحاظ کرنا ضروری ہے، اور یہ شرائط ہمارے اسی مسئلہ کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ دلائل تیسرے قول کے دلائل، درحقیقت دوسرے قول والے دلائل ہی ہیں جو سابقہ صفحات میں گذر چکے ہیں ۔ ایسے ہی شروط و قیود کے دلائل بھی شرائط کے ساتھ ہی ذکر کئے جاچکے ہیں ۔ اگلی قسط میں فقہاے کرام کے تینوں اقوال او ران کے دلائل کا تجزیہ وتبصرہ پیش کیا جائے گا، اور ان میں پیش کردہ استدلال کا باہم تقابل کرتے ہوئے ایک واضح موقف تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ