کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 51
شرط1:وہ مال بیٹے کی ضرورت سے زائد ہو تاکہ اس مال کو اپنی ملکیت میں لینے سے بیٹے کو ضرر نہ پہنچے ، کیونکہ ضرر سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا ضَرَر ولا ضِرار)) (ابن ماجہ:۲۳۴۰، مستدرک حاکم:۲/۵۷ وصحَّحہ ووافقہ الذہبي علی تصحیحہ) لہٰذا باپ اپنے بیٹے کے ایسے مال کو اپنی ملکیت میں نہیں لے سکتا جو اس کی ضروریاتِ زندگی سے متعلق ہو جیسے کوئی مشینری جس سے وہ روزی کماتا ہے، یا تجارت میں رأس المال وغیرہ۔ کیونکہ شریعت کی نظر میں انسان کی ضرورت اس کے قرض پر مقدم ہے۔ جو باپ پر بھی بالاولیٰ مقدم ہے۔ چنانچہ فقہاء تابعین میں سے عطاء بن ابی رباح مکی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ باپ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کواپنی ملکیت میں لے سکتا ہے بشرطیکہ بیٹے کو اس سے ضرر نہ ہو۔ شرط2: باپ وہ مال اپنے لئے حاصل کرے، نہ کہ دوسرے بیٹے کو دے دے، یعنی ایک بیٹے (زید) کا مال لے کر دوسرے بیٹے (عمرو) کو نہ دے، کیونکہ یہ منع ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ باپ اپنی اولاد میں سے کسی ایک کواپنے مال میں سے عطیہ دے دے جبکہ دیگر کو نہ دے۔(صحیح بخاری:۲۶۵۰) جب باپ اپنے ذاتی مال سے اپنی اولاد میں سے عطیہ دینے کے لئے کسی کو خاص نہیں کرسکتا تو ایک بیٹے کے مال سے لے کر دوسرے کو دینے کے لئے خاص کرنا بالاولیٰ حرام ہے۔ شرط3:بیٹے کے مال کو اس وقت اپنی ملکیت بنانا جب کہ بیٹا یا باپ مرض الموت کی حالت میں نہ ہوں ، کیونکہ مرض کے ساتھ ہی ملکیت بنانے کا اختیار منقطع ہوگیا۔ شرط4: باپ کافر اور بیٹا مسلمان ہو تو اس وقت بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا، بالخصوص اس وقت جب بیٹا کافر ہونے کے بعد مسلمان ہوجائے اور ا س کا باپ کفر پر ہی قائم ہو۔ (الاختیارات الفقہیہ: ص۱۸۷) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اسی کے مشابہ صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ مسلمان ہو اور بیٹا کافر ہو۔ اس صورت میں بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا کیونکہ اختلاف ِ ادیان سے ولایت اور وراثت منقطع ہوجاتی ہے۔‘‘