کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 50
بیٹے کے وجود اور اس کی جملہ کمائی کا سبب ہے اور والدین کے لئے مطلقاً جائز ہے کہ وہ اپنی کمائی میں سے جس طرح چاہیں ، فائدہ اُٹھائیں ۔
7. سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ جس کو کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، اگرچہ تجھے عذاب دیا جائے اور والدین کی اطاعت کرنا، اگرچہ وہ تجھے تیرے مال اور تیری ملکیت میں موجودہر چیزسے نکال دیں … (قال المنذري في الترغیب والترہیب :۱/۳۸۳، رواہ الطبراني في الأوسط ۲۹۵۶ ولا بأس بـإسنادہ في المتابعات)
8. سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کی وصیت فرمائی: اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، اگر تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے یا جلا دیا جائے… اپنے والدین کی اطاعت کرنا، اگرچہ وہ تجھے اپنی دنیا سے نکل جانے کا حکم دیں ، پس تو نکل جا۔
(الأدب المفرد للبخاري :۱/۶۹، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد:۴/۲۱۷ رواہ الطبراني وفیہ شہر بن حوشب وحدیثہ حسن وبقیہ رجالہ ثقات)
آخر الذکردونوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی اولاد کو اپنے مال اور اپنی ملکیت میں موجود دنیا کی ہر چیز سے نکل جانے کا حکم ہی کیوں نہ دیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کے مال میں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے اور بیٹے پر واجب ہے کہ اپنے مال کے بارے میں والدین کے حکم کو مانے اور ان کی اطاعت کرے۔
تیسرا قول
یہ قول بھی دوسرے قول کی مانند ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے مال پر قبضہ کرسکتاہے، لیکن اُنہوں نے چند شرائط لگا دی ہیں ، جن کی موجودگی میں باپ اپنے بیٹے کا مال لے سکتا ہے۔
قائلین:یہ حنابلہ کا قول ہے اور ان کے ہاں اسی کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے۔
(المغنی:۶/۲۸۸، کشاف القناع للبہوتی: ۴/ ۳۱۷)