کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 5
ممالک میں سب سے زیادہ مجرم سزاے موت کے قانون کا نشانہ بن رہے ہیں ، جن کے نام بالترتیب یہ ہیں : چین، ایران، سعودی عرب ، پاکستان اور امریکہ‘‘ پاکستان میں گذشتہ سال ۱۲۶/ اَفراد کو سزاے موت دی گئی اوراس وقت ملک کی مختلف جیلوں میں ۷ ہزار کے لگ بھگ قیدی کال کوٹھری میں سزاے موت کے منتظر ہیں ۔ پاکستان میں عاصمہ جہانگیر کا’انسانی حقوق کمیشن ‘ اپنے مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں کئی سالوں سے موت کی سزا کے خاتمے کی تحریک چلا رہا ہے۔ اس قانون میں موجودہ تبدیلی کا فوری محرک بھارت کے ایک قیدی کشمیر سنگھ کی سزاے موت معاف کرنے کی اپیل ہے جو صدر کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔ سزاے موت کے قانون میں موجودہ تبدیلی کو ملک میں اسی حقوق کمیشن نے سراہا ہے، جبکہ دیگر قانونی، سیاسی، معاشرتی اور اسلامی حلقے اس خلافِ شریعت تبدیلی پر سراپا احتجاج ہیں ۔ انسانی حقوق کمیشن نے موت کی سزا کے سلسلے میں ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’توہین رسالت واحد ایسا قانون ہے جس کی لازمی سزا موت ہے، علاوہ ازیں ملک میں ’قانونِ قصاص ودیت‘ کی بنا پر بھی سزاے موت کے واقعات میں کافی تیزی آئی ہے۔ کمیشن نے عدالت ِعظمیٰ پر بھی یہ الزام عائد کیا ہے کہ ۲۰۰۳ء میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں جرم قتل کی سزا میں سزاے موت کی تلقین کرکے اس کو مزید رواج دیا ہے۔‘‘ سیاسی صورتحال اس سے قبل ۲۰۰۰ء میں ۱۸ سال سے کم عمر مجرموں کی سزاے موت کو ممنوع قرار دیا گیا تھا جس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہے، البتہ سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کرنے کی تازہ تبدیلی کا محرک وزارتِ داخلہ کی ایک سفارش ہے، جسے مشرف کے دورِ آمریت میں اہم عہدوں پر کام کرنے والے سیکرٹری سید کمال شاہ کے دستخطوں سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو بھیجا گیا ہے۔ یاد رہے کہ وزارتِ عظمی کے بعد اہم ترین وزارتِداخلہ کا قلم دان بھی تاحال پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے کسی رکن کو سونپنے کی بجائے صدر مشرف کے بااعتماد ساتھی رحمن ملک کے ہی سپرد ہے جو مشیر کے منصب سے ہی اس وزارت کے تما م معاملات چلا رہے ہیں ۔