کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 49
((أنت ومالک لأبیک)) ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان :۲/۱۴۲ وصحَّحہ الإمام العیني في عمدۃ القاري:۱۳/۱۴۲)
2. سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور وہ اپنے باپ کے ساتھ جھگڑ رہا تھا۔ اس آدمی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (میرا باپ) میرے مال کا ضرورت مند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أنت ومالک لأبیک))
’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے۔‘‘ (مسند احمد:۲/۲۰۴)
3. سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرے پاس مال، اور باپ ہے اور میرا باپ میرے مال کا صفایا کرنا چاہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أنت ومالک لأبیک)) ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے۔‘‘ مزید فرمایا کہ تمہاری اولادیں تمہاری بہترین کمائی ہیں ، پس تم اپنی اولادوں کی کمائی سے کھاؤ۔‘‘ (مسند احمد:۲/۲۱۵)
4. سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میرا والد میرے مال کا صفایا کرنا چاہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے والد کے لئے ہے۔ بے شک بہترین کھانا، تمہاری اپنی کمائی سے ہے اور تمہاری اولادوں کے اَموال بھی تمہاری ہی کمائی ہے، پس تم خوش دلی کے ساتھ کھاؤ۔‘‘ (احمد:۲/۱۷۹)
5. سیدنا عمارہ بن عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں کہ ’’اُنہوں نے اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال پوچھا کہ میری گود میں یتیم بچہ ہے، کیا میں اس کا مال کھا سکتی ہوں ؟ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بے شک بہترین کھانا، انسان کی اپنی کمائی سے ہے اور اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔‘‘ (سنن ابوداود:۳۵۲۸، سنن نسائی: ۴۴۵۰)
6. اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: ’’آدمی کا بیٹا اس کی کمائی ہے بلکہ بہترین کمائی ہے، لہٰذا تم اپنے اَموال سے کھاؤ۔‘‘ (سنن ابوداؤد:۳/۸۰۰، رقم۳۵۲۹)
مذکورہ احادیث کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اور اولاد کی جملہ ملکیت کو باپ کی کمائی قرار دیا، بلکہ بہترین کمائی قرار دیا ہے، کیونکہ باپ کی ذات ہی،