کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 48
کوئی تذکرہ نہیں ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ﴿أوْ بُیُوْتِ اَوْلَادِکُمْ﴾ کے الفاظ نہیں ہیں ، کیونکہ اولاد ﴿مِنْ بُیُوْتِکُمْ﴾ کے حکم میں ہی داخل ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کے گھر والدین کے اپنے گھروں کی مانند ہیں ، اسی لئے اولاد کے گھروں کا الگ سے ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اولاد کے گھر بھی اولاد کے ہیں بلکہ والدین کے ہی گھر ہیں ۔
اس سے ثابت ہوا کہ حدیث ِنبوی ((أنت ومالک لأبیک)) درحقیقت کتاب اللہ سے ہی ماخوذ اور اس آیت کے ضمن میں موجود مخفی نتائج ومضمرات کی تفصیل ہے۔ (المغنی لابن قدامہ:۶/۲۸۸ بروایت ِسفیان بن عیینہ، مجموع الفتاویٰ :۳۴/۶۸ کشاف القناع :۴/۳۱۷)
2. امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا اپنے باپ کے لئے عطیہ (ہبہ) بنایا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَوَھَبْنَا لَہُ اِسْحَقَ وَیَعْقُوْبَ﴾ (الانبیاء:۷۲) ’’اور ہم نے اسے اسحق عطاکیا اور یعقوب‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَوَھَبْنَالَہُ یَحْیٰی﴾ (الانبیاء:۹۰)
’’اور ہم نے اسے یحییٰ عطا کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَھَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا﴾ (مریم:۵)
’’تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کردے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلْحَمْدُﷲِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحٰقَ﴾ (ابراہیم :۳۹)
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسحق اور اسماعیل جیسے بیٹے دیئے۔‘‘
اور جوشے (یعنی اولاد) باپ کوہبہ کی گئی ہے اس میں باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے غلام کی مانند اس اولاد کا مال بھی لے سکتا ہے۔ (المغنی:۶/۲۸۸؛کشاف القناع:۴/۳۱۷)
2. حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل
1. اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ اپنے باپ کے ساتھ ، اس کو دیے گئے قرض کے سلسلے میں جھگڑا کررہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: