کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 47
3. امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسی روایت کو صحیح کہا ہے کہ ’’ماں باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لے سکتے ہیں ۔‘‘ (المحلّٰی:۸/۱۰۴)
4. امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی مانند صحیح ثابت ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: آدمی اپنے بیٹے کے مال سے جتنا چاہے کھا سکتا ہے، لیکن بیٹا اپنے باپ کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھا سکتا۔ (ایضاً)
5. امام ابن حزم رحمہ اللہ ہی اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ فضالہ بن ہرمزحنفی رحمہ اللہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بن مالک کو کہا: میرے باپ نے میری لونڈی پر قبضہ کرلیا ہے حالانکہ میرے باپ نے اس کو خریدا نہیں ؟ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ لونڈی تیرے باپ کی ہے، اور تیرا مال اس کی کمائی ہے، تو اور تیرا مال اس کے لئے حلال ہے، اور اس کا مال تیرے اوپر حرام ہے، اِلا یہ کہ وہ تجھے رضا مندی سے دے دے۔(ایضاً)
6. امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: ((أولادکم ھبۃ اﷲ لکم، وأموالھم لکم)) ’’تمہاری اولادیں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہیں اور ان کے مال تمہارے لئے ہیں ۔‘‘ (ایضاً)
اس موقف کے قرآن کریم اورسنت مطہرہ سے دیگر تفصیلی دلائل حسب ِذیل ہیں :
1. قرآنِ مجید سے دلائل
1. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَیْسَ عَلَی الأعْمٰی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی اَنْفُسِکُمْ أنْ تَأکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ أوْ بُیُوْتِ اٰبَائِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہٰتِکُمْ… ﴾ (النور:۶۱)
’’کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھالے) اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یااپنے باپ دادا کے گھروں سے۔‘‘
اس آیت ِکریمہ میں وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں دس قسم کے رشتہ دار بیان کئے ہیں جن کے گھروں سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان دس اصناف میں اولاد کا